اشاعتیں

قوم وملت کا سچا محافظ حضرت مولانا زاهد حسن صاحب ابراهيمي

قوم وملت کا سچا محافظ مفکر ملت حضرت مولانا زاہد حسن صاحب نور اللہ مرقدہ   از قلم : جاوید خلیل قاسمی بالوی  استاذ  حدیث و مفتی جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت حضرت مولانا زاہد حسن صاحب نور اللہ مرقدہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ، مجھے آپ کی زیارت و ملاقات کا شرف تو حاصل نہ ہوسکا ؛ کیوں کہ حضرت کے انتقال کے وقت میری عمرصرف سات سال تھی۔ یہ تو یاد نہیں کہ سب سے پہلے آپ کا اسم گرامی کب سنا، البتہ اتنا یاد ہے کہ جب سے ہوش سنبھالااورعلم و کتاب سے کچھ مناسبت ہوئی، حضرت کا اسم گرامی ، علمی کارنامے اور قومی و ملی خدمات کے بارے میں برابر سنتا رہا۔ آپ کو اللہ تعالی نے اعلی اخلاق ، بلند کردار ، تقوی و طہارت ، صدق و امانت ، اخلاص و للہیت اور علمی و عملی قابلیت جیسی بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ آپ متبحر عالم، مادر زاد ولی، بے مثال سیاسی قائد،  قوم و ملت کے سچے محافظ اور بے لوث خادم دین تھے، ایسے لوگ مدتوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ نام ونسب:   حضرت مولانا زاہد حسن صاحب ،بن چودھری محمد اسماعیل، بن قلندر بخش ،بن محمد علی، بن کریم الدین۔ پیدائش:   جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے اس وقت کسی ک...

سمندری سفر میں شہید ہونے والے کی فضیلت

 سوال: ہمارے یہاں ایک تبلیغی صاحب نے یہ بیان کیا کہ اگر کوئی شخص سمندر پار دعوت دیتے ہوے انتقال کرجاے تو اسکی روح اللہ تعالی بذات خود قبض فرماتاہے۔  گذارش ھیکہ اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں آیا مذکورہ بات درست ھے یا پھر وہی سنی سنائی بات کو آگے چلتی کردینے کے مشابہ ھے؟ ابوالقاسم شاملی  الجواب و باللہ التوفیق: ان صاحب کی یہ بات صحیح نہیں، ایک حدیث میں سمندری سفر میں شہید ہونے والے مجاہدین کے لیے یہ فضیلت آئی ہے، سمندر پار دعوت و تبلیغ کا کرتے ہوئے مرنے والوں کے لیے نہیں۔ حدیث یہ ہے: عن ابی أمامة قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: "شہید البحر مثل شہیدی البر، والمائد فی البحر کالمتشحط فی دمہ فی البر، وما بین الموجتین کقاطع الدنیا فی طاعة اللہ، وإن اللہ عز وجل وکل ملک الموت بقبض الأرواح إلا شہید البحر، فإنہ یتولی قبض أرواحہم ویغفر لشہید البر الذنوب کلہا، إلا الدین ولشہید البحر الذنوب والدین." [سنن ابن ماجہ ، رقم: 2778،باب فضل غزو البحر) ترجمہ: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ”سمندر کا شہید خشکی کے دو شہیدو...

موٹے گدے کو پاک کرنے کا طریقہ

سوال:  اگر گدے میں ناپاکی لگ جائے، یا بچہ پیشاب کردے تو اس کو پاک کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ اورصرف اتنا ہی حصہ پاک کرنا کافی ہے جتنے میں ناپاکی لگی ہے یا پورا گدا پاک کرنا ضروری ہے؟ الجواب و باللہ التوفیق: موٹے گدے کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے دونوں کناروں کو کسی اونچی چیز پر رکھ دیں اور پیشاب کی جگہ پر پانی ڈالیں یہاں تک کہ پانی نیچے سے نکلنے لگے، پھر جب وہ پانی اتنا خشک ہوجائے کہ اس کو چھونے سے ہاتھ میں پانی نہ آئے خواہ تری محسوس ہوتی ہو، دوبارہ پانی ڈالیں، اسی طرح تین مرتبہ کریں۔ پورا گدا دھونا ضروری نہیں، صرف پیشاب کی جگہ دھولیں تب بھی گدا پاک ہوجائے گا۔  بدائع میں ہے: فأما إذا علم أنہ تشرب فیہ فقد قال أبویوسف ینقع في الماء ثلاث مرات ویجفف في کل مرة فیحکم بطہارتہ․ (البدائع: ۱/۲۵۰) واللہ اعلم جاوید خلیل قاسمی  مفتی جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت 23/ جمادی الاولی 1442ھ

مسلمان کے لیے کسی کافر میت کو جلانا کیسا ہے

 سوال: گذشتہ کچھ مہینوں قبل مختلف علاقوں میں کچھ مسلم نوجوان حالات کی نزاکت کی وجہ سے غیر مسلم بردران وطن کی نعشوں کو جلانے کا کام کرتے رہے ہیں۔ ان کا یہ فعل کیسا ہے ؟ الجواب و باللہ التوفیق: ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِهِ حَيًّا۔ میت کی ہڈی کو توڑنا اسکی زندگی میں اسے توڑنے کی طرح ہے۔ (سنن أبی داود: 3207) گویا زندہ کی ہڈی توڑنا اور میت کی ہڈی توڑنا شریعت اسلامیہ میں برابر ہے۔  احترام آدمیت کا درس دین اسلام کا طرہ امتیاز ہے۔ مرنے کے بعد بھی شریعت نے انسانی جسم کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح اگر کوئی میت کو جلاتا ہے تو وہ اسی اصول کے تحت زندہ کو جلانے کے برابر جرم کرنے کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔ لہذا کسی طور پر بھی کسی بھی میت کو جلانے کا تصور اسلام میں نہیں پایا جاتا، خواہ میت مسلمان کی ہو یا غیر مسلم کی ۔ بناء بریں اسلام میں کسی بھی انسان کو جلانے کی ممانعت ہے؛ اس لئے مردہ کو آگ لگانا جائز نہیں۔ اس لیے جن مسلم لوگوں نے ایسا کیا ہے، وہ ناجائز کام کے مرتکب ہوئے ہیں، انہیں...

نفلی حج افضل ہے یا فقراء ومساکین کی امداد؟

سوال: نفلی حج و عمرہ کرنا افضل ہے یا فقراء ومساکین کی امداد و تعاون کرنا ؟ الجواب و باللہ التوفیق:  نفلی حج یا عمرہ کرنا بھی فضیلت والا عمل ہے، اور غرباء پر خرچ کرنا بھی خیرِ کثیر کا حامل ہے، یہ سب نیکی کے کام ہیں، لیکن ان میں سے کس کو ترجیح دینی چاہیے؟ اس میں کچھ تفصیل ہے، وہ یہ کہ ان کاموں میں سے جس کی ضرورت زیادہ ہو اُس میں زیادہ ثواب ہو گا، اگر کسی جگہ فقراء زیادہ ضرورت مند یا نیک صالح یا سادات میں سے ہوں تو ان پر خرچ کرنا اور ان کا اکرام کرنا نفلی حج و عمرہ سے افضل ہوگا۔ اور اس علاقہ کے فقراء بہت زیادہ محتاج نہ ہوں، بلکہ اُن کی ضروریات کسی طرح پوری ہو رہی ہوں تو نفلی حج کرنا زیادہ بہتر ہو گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے فرمایا: آخری زمانہ میں لوگ بلاوجہ کثرت سے حج کریں گے، ان کے لئے سفر انتہائی آسان ہوگا اورمال و دولت کی فراوانی ہوگی، تو ان میں سے ایک شخص ریگستان اور بے آب و گیاہ زمین میں اپنا اونٹ دوڑائے گا اور حج کا سفر کرے گا حالانکہ اس کا پڑوسی بدحال ہوگا اور وہ اس کی غم خواری نہ کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ حج کے ارادے سے ریگستانوں اور بے آب و گیاہ...

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے حج اور عمرے فرمائے؟

 سوال: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کتنے حج اور کتنے عمرے کئے؟ الجواب و باللہ التوفیق:  حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد سے ہجرت تک تین حج کئے، فرضیت حج کا حکم نازل ہونے کے بعد آپ نے ایک حج فرمایا جس کو حجۃ الوداع ، حجۃ البلاغ اور حجۃ الاسلام کہتے ہیں - یہ وہ عظیم یادگار اور تاریخ ساز حج ہے جس میں صحابہ کرام کی ایک بہت بڑی تعداد نے آپ کے ہمراہ فریضہ حج ادا کیا، اور آپ سے حج وعمرہ کے احکام سیکھے۔  سیرت حلبیہ میں ہے : " ولم يحج منذ هاجر الي المدينة غير هذه الحجة,قال واما بعد النبوة قبل الهجرة فحج ثلاث حجات " اھ ( سیرت حلبیہ ج 3، ص 283 ) ۔  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کل چار عمرے کیے ہیں، البتہ ان میں سے عمرہ حدیبیہ کفار کی رکاوٹ کی وجہ سے مکمل نہیں ہوسکا تھا، باقی تین عمرے مکمل ادا فرمائے، اور یہ تمام کے تمام ذی قعدہ کے مہینے میں کیے، سوائے اس عمرہ کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے ساتھ کیا، وہ ذی الحجہ میں ہوا تھا. صحیح مسلم میں ہے : " أن رسول الله صلی الله علیه وسلم اعتمر أربع عمر کلهن فی ذی القعدة إلا التی مع ...

مقیم مقتدی کا مسافر امام کے ساتھ دو رکعت پر سلام پھیرنے کا حکم

  سوال: امام مسافر تھا، مقتدی سب مقیم تھے، جب امام نے عشاء میں دو رکعت پر سلام پھیرا، تو ان مقتدیوں نے بھی امام کے ساتھ سلام پھیردیا، ان کو معلوم نہیں تھا کہ امام مسافر ہے، سلام کے بعد امام کے اعلان سے ان کو یہ پتہ چلا کہ امام مسافر ہے، پھر مقتدیوں میں بعض کو تو معلوم تھا کہ ابھی دو رکعت ہی ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے بھی امام کے ساتھ سلام پھیردیا، اور بعض کا خیال تھا کہ نماز پوری ہوگئی، یہ سمجھ کر انہوں نے امام کے ساتھ سلام پھیرا، پھر امام کے اعلان کرنے کے بعد سب نے کھڑے ہوکر دو رکعت اور پڑھی اور اپنی نماز پوری کرلی، اب غور طلب یہ ہے کہ ان مقتدیوں کی نماز کا کیا حکم ہے؟ الجواب و باللہ التوفیق: جن مقتدیوں نے یہ سمجھ کر امام کے ساتھ سلام پھیرا کہ نماز مکمل ہوگئی، ان کی نماز صحیح ہوگئی، اور سلام پھیرنے کی وجہ سے سجدہ سہو بھی واجب نہیں ہوا، کیوں کہ لاحق کو اگر سہو ہوجائے، تو اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، اس لئے کہ وہ حکما امام کے پیچھے ہے۔ عالمگیری(1/ 238، ط:اتحاد) میں ہے:  "واللاحق لا یسجد لسہوہ فی ما یقضی، و المسبوق یسجد لسہوہ فی ما یقضی۔" "وحکمہ کمؤتم، فلا يأتي ...