سمندری سفر میں شہید ہونے والے کی فضیلت

 سوال: ہمارے یہاں ایک تبلیغی صاحب نے یہ بیان کیا کہ اگر کوئی شخص سمندر پار دعوت دیتے ہوے انتقال کرجاے تو اسکی روح اللہ تعالی بذات خود قبض فرماتاہے۔

 گذارش ھیکہ اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں آیا مذکورہ بات درست ھے یا پھر وہی سنی سنائی بات کو آگے چلتی کردینے کے مشابہ ھے؟

ابوالقاسم شاملی 


الجواب و باللہ التوفیق:

ان صاحب کی یہ بات صحیح نہیں، ایک حدیث میں سمندری سفر میں شہید ہونے والے مجاہدین کے لیے یہ فضیلت آئی ہے، سمندر پار دعوت و تبلیغ کا کرتے ہوئے مرنے والوں کے لیے نہیں۔

حدیث یہ ہے:

عن ابی أمامة قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: "شہید البحر مثل شہیدی البر، والمائد فی البحر کالمتشحط فی دمہ فی البر، وما بین الموجتین کقاطع الدنیا فی طاعة اللہ، وإن اللہ عز وجل وکل ملک الموت بقبض الأرواح إلا شہید البحر، فإنہ یتولی قبض أرواحہم ویغفر لشہید البر الذنوب کلہا، إلا الدین ولشہید البحر الذنوب والدین." [سنن ابن ماجہ ، رقم: 2778،باب فضل غزو البحر)

ترجمہ: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 ”سمندر کا شہید خشکی کے دو شہیدوں کے برابر ہے، سمندر میں جس کا سر چکرائے وہ خشکی میں اپنے خون میں لوٹنے والے کی مانند ہے، اور ایک موج سے دوسری موج تک جانے والا اللہ کی اطاعت میں پوری دنیا کا سفر کرنے والے کی طرح ہے، اللہ تعالیٰ نے روح قبض کرنے کے لیے ملک الموت (عزرائیل) کو مقرر کیا ہے، لیکن سمندر کے شہید کی جان اللہ تعالیٰ خود قبض کرتا ہے، خشکی میں شہید ہونے والے کے قرض کے علاوہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں، لیکن سمندر کے شہید کے قرض سمیت سارے گناہ معاف ہوتے ہیں“۔

یہ حدیث سمندر ی راستے سے گزر کر اعلائے کلمة اللہ کے لیے راہ خدامیں جہاد وقتال کرتے ہوئے جان دینے والے مجاہدین کی فضیلت کے بارے میں ہے۔ واضح رہے کہ یہ حدیث محدثین کے اصول کے مطابق ضعیف ہے ۔ (کذا فی فتویٰ دار الافتاء دار العلوم دیوبند)

واللہ تعالیٰ اعلم

جاوید خلیل قاسمی 

مفتی جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت

23/ 5/ 1442ھ


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حزب البحر مع طريق زکوۃ

زندہ مرغی تول کر بيچنے کا حکم

مفتی قاسم جلال آبادی