نفلی حج افضل ہے یا فقراء ومساکین کی امداد؟
سوال: نفلی حج و عمرہ کرنا افضل ہے یا فقراء ومساکین کی امداد و تعاون کرنا ؟
الجواب و باللہ التوفیق:
نفلی حج یا عمرہ کرنا بھی فضیلت والا عمل ہے، اور غرباء پر خرچ کرنا بھی خیرِ کثیر کا حامل ہے، یہ سب نیکی کے کام ہیں، لیکن ان میں سے کس کو ترجیح دینی چاہیے؟ اس میں کچھ تفصیل ہے، وہ یہ کہ ان کاموں میں سے جس کی ضرورت زیادہ ہو اُس میں زیادہ ثواب ہو گا، اگر کسی جگہ فقراء زیادہ ضرورت مند یا نیک صالح یا سادات میں سے ہوں تو ان پر خرچ کرنا اور ان کا اکرام کرنا نفلی حج و عمرہ سے افضل ہوگا۔ اور اس علاقہ کے فقراء بہت زیادہ محتاج نہ ہوں، بلکہ اُن کی ضروریات کسی طرح پوری ہو رہی ہوں تو نفلی حج کرنا زیادہ بہتر ہو گا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے فرمایا: آخری زمانہ میں لوگ بلاوجہ کثرت سے حج کریں گے، ان کے لئے سفر انتہائی آسان ہوگا اورمال و دولت کی فراوانی ہوگی، تو ان میں سے ایک شخص ریگستان اور بے آب و گیاہ زمین میں اپنا اونٹ دوڑائے گا اور حج کا سفر کرے گا حالانکہ اس کا پڑوسی بدحال ہوگا اور وہ اس کی غم خواری نہ کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ حج کے ارادے سے ریگستانوں اور بے آب و گیاہ زمینوں میں سفر کرے گا اور اپنے پڑوسی کو اس حال میں چھوڑ دے گا کہ وہ بھوک، فقر اور ضرورت سے بدحال ہوگا اور کوئی اس کا پرسان حال نہ ہوگا، یہی آج کل ہورہا ہے۔
بشربن حارث جو کہ متصوفین وزہاد میں شہرت کے حامل ہیں اور جن کا شمارامت کے معروف زاہدوں اوراللہ والوں میں ہوتا ہے، ان کے پاس ایک شخص آیااور کہنے لگا: اے ابونصر! میں نے حج کا ارادہ کیاہے اور آپ کے پاس کچھ نصیحت کی باتیں سننے آیا ہوں، تو کیاآپ مجھے کچھ نصیحت کریں گے؟ آپ نے اس سے پوچھا: تم نے حج کے لئے کتنا سفر خرچ اکٹھا کیا ہے؟ اس نے کہا: دو ہزار درہم، (ہزار درہم اس وقت کے لئے ایک بڑی رقم تھی اوراس کی قوت خرید بہت زیادہ تھی) انھوں نے اس سے پھر دریافت کیا: تم اس حج کے ذریعہ زہد و تقوی حاصل چاہتے ہو یا بیت اللہ کا اشتیاق تمھیں وہاں لئے جارہا ہے یا تم رضائے الٰہی کے حصول کے خواہشمند ہو؟اس نے کہا: خدا کی قسم رضائے الٰہی کا حصول میرا مقصد ہے، انھوں نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا راستہ بتاؤں جس سے تمہیں اپنے شہرہی میں گھر بیٹھے خدا کی خوشنودی حاصل ہوجائے اوراگر میں تمہیں یہ طریقہ بتاؤں تو کیا تم اس کے مطابق عمل کروگے؟ اس نے کہا: ضرور کروں گا۔ فرمایا: جاؤ اور یہ رقم دس لوگوں کو دے دو، کسی فقیر کو جس سے تم اس کی تنگ دستی دور کردو، یتیم کو جس کی ضرورتیں پوری کردو، قرض دار جس کا قرض ادا کردو اور کسی کثیر العیال شخص کو جس سے کہ تم اس کے اہل وعیال کا بوجھ ہلکا کردو ․․․․ اس طرح انھوں نے دس لوگوں کا ذکر کیا اور کہا: اگر تم ان میں سے کسی ایک کو یہ رقم دے دو جس سے اس کی ضرورتیں پوری ہوجائیں تو یہ عمل افضل ہے۔ یہ سن کر اس شخص نے کہا: اے ابونصر! میں سفر کا پختہ ارادہ کرچکا ہوں، فرمایا کہ جب مال گندی تجارت اورمشکوک ذرائع سے اکٹھا کیا جاتا ہے تو انسان کا نفس اسے اپنی خواہشات کے مطابق خرچ کرنا چاہتا ہے۔یعنی ایسا شخص مسلمانوں کیلئے نفع بخش اور افضل چیزوں کو چھوڑ کر حج کی خوشیاں لوٹنا زیادہ پسند کرتا ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 621) میں ہے:
"بناء الرباط أفضل من حج النفل. واختلف في الصدقة، ورجح في البزازية أفضلية الحج لمشقته في المال والبدن جميعاً، قال: وبه أفتى أبو حنيفة حين حج وعرف المشقة.
(قوله: ورجح في البزازية أفضلية الحج) حيث قال: الصدقة أفضل من الحج تطوعاً، كذا روي عن الإمام لكنه لما حج وعرف المشقة أفتى بأن الحج أفضل، ومراده أنه لو حج نفلاً وأنفق ألفاً فلو تصدق بهذه الألف على المحاويج فهو أفضل لا أن يكون صدقة فليس أفضل من إنفاق ألف في سبيل الله تعالى، والمشقة في الحج لما كانت عائدةً إلى المال والبدن جميعاً فضل في المختار على الصدقة. اهـ. قال الرحمتي: والحق التفصيل، فما كانت الحاجة فيه أكثر والمنفعة فيه أشمل فهو الأفضل، كما ورد: «حجة أفضل من عشر غزوات». وورد عكسه، فيحمل على ما كان أنفع، فإذا كان أشجع وأنفع في الحرب فجهاده أفضل من حجه، أو بالعكس فحجه أفضل، وكذا بناء الرباط إن كان محتاجاً إليه كان أفضل من الصدقة وحج النفل وإذا كان الفقير مضطراً أو من أهل الصلاح أو من آل بيت النبي صلى الله عليه وسلم فقد يكون إكرامه أفضل من حجات وعمر وبناء ربط. كما حكى في المسامرات عن رجل أراد الحج فحمل ألف دينار يتأهب بها فجاءته امرأة في الطريق وقالت له: إني من آل بيت النبي صلى الله عليه وسلم وبي ضرورة فأفرغ لها ما معه، فلما رجع حجاج بلده صار كلما لقي رجلاً منهم يقول له: تقبل الله منك، فتعجب من قولهم، فرأى النبي صلى الله عليه وسلم في نومه وقال له: تعجبت من قولهم تقبل الله منك؟ قال: نعم، يا رسول الله؛ قال: إن الله خلق ملكاً على صورتك حج عنك؛ وهو يحج عنك إلى يوم القيامة بإكرامك لامرأة مضطرة من آل بيتي؛ فانظر إلى هذا الإكرام الذي ناله لم ينله بحجات ولا ببناء ربط".
(مستفاد: فتاویٰ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن، و مضمون علامہ یوسف القرضاوی)
واللہ اعلم
جاوید خلیل قاسمی
استاذ حدیث ومفتی جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت ضلع شاملی
16/ جمادی الاولی 1442ھ
ماشاءاللہ! اللہ آپ کی خدمات کو قبولیتِ تامہ عطاء فرمائے!آمین!
جواب دیںحذف کریں