مقیم مقتدی کا مسافر امام کے ساتھ دو رکعت پر سلام پھیرنے کا حکم
سوال: امام مسافر تھا، مقتدی سب مقیم تھے، جب امام نے عشاء میں دو رکعت پر سلام پھیرا، تو ان مقتدیوں نے بھی امام کے ساتھ سلام پھیردیا، ان کو معلوم نہیں تھا کہ امام مسافر ہے، سلام کے بعد امام کے اعلان سے ان کو یہ پتہ چلا کہ امام مسافر ہے، پھر مقتدیوں میں بعض کو تو معلوم تھا کہ ابھی دو رکعت ہی ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے بھی امام کے ساتھ سلام پھیردیا، اور بعض کا خیال تھا کہ نماز پوری ہوگئی، یہ سمجھ کر انہوں نے امام کے ساتھ سلام پھیرا، پھر امام کے اعلان کرنے کے بعد سب نے کھڑے ہوکر دو رکعت اور پڑھی اور اپنی نماز پوری کرلی، اب غور طلب یہ ہے کہ ان مقتدیوں کی نماز کا کیا حکم ہے؟
الجواب و باللہ التوفیق:
جن مقتدیوں نے یہ سمجھ کر امام کے ساتھ سلام پھیرا کہ نماز مکمل ہوگئی، ان کی نماز صحیح ہوگئی، اور سلام پھیرنے کی وجہ سے سجدہ سہو بھی واجب نہیں ہوا، کیوں کہ لاحق کو اگر سہو ہوجائے، تو اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، اس لئے کہ وہ حکما امام کے پیچھے ہے۔
عالمگیری(1/ 238، ط:اتحاد) میں ہے:
"واللاحق لا یسجد لسہوہ فی ما یقضی، و المسبوق یسجد لسہوہ فی ما یقضی۔"
"وحکمہ کمؤتم، فلا يأتي بقراءة و لا سهو."
(الدر المختار مع رد المحتار 2/ 416، تھانوی)
اور جن کو یہ معلوم تھا کہ ابھی نماز پوری نہیں ہوئی، اور یہ جانتے ہوئے انہوں نے امام کے ساتھ سلام پھیردیا، ان کی نماز فاسد ہوگئی، وہ اپنی نماز کا اعادہ کرلیں، اس سلسلے میں لاحق کا حکم وہی ہے جو مسبوق کا ہے۔
"و لو سلم المسبوق مع الامام، ینظر ! ان کان ذاکرا لما علیہ من القضاء فسدت صلاتہ، و ان کان کان ساھیا لما علیہ من القضاء لا تفسد صلاتہ؛ لانہ سلام الساھی، فلا یخرجہ عن حرمة الصلاة." (عالمگیری 1/ 121، اتحاد)
"المسبوق یخالف اللاحق فی القضاء فی ستة أشياء: فی محاذاة المرأة، والقراءة، والسهو، والقعدة الأولى إذا تركها الإمام، و في ضحك الإمام في موضع السلام، وفي نية الإمام الاقامة إذا قيد المسبوق الركعة بالسجدة. كذا في الظهيرية." (عالمگیری 1/ 103، ط: اتحاد)
واللہ اعلم
جاوید خلیل قاسمی
مفتی جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت، ضلع شاملی
10/ جمادی الاولی 1442ھ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں