قوم وملت کا سچا محافظ حضرت مولانا زاهد حسن صاحب ابراهيمي
قوم وملت کا سچا محافظ
مفکر ملت حضرت مولانا زاہد حسن صاحب نور اللہ مرقدہ
از قلم : جاوید خلیل قاسمی بالوی
استاذ حدیث و مفتی جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت
حضرت مولانا زاہد حسن صاحب نور اللہ مرقدہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ، مجھے آپ کی زیارت و ملاقات کا شرف تو حاصل نہ ہوسکا ؛ کیوں کہ حضرت کے انتقال کے وقت میری عمرصرف سات سال تھی۔ یہ تو یاد نہیں کہ سب سے پہلے آپ کا اسم گرامی کب سنا، البتہ اتنا یاد ہے کہ جب سے ہوش سنبھالااورعلم و کتاب سے کچھ مناسبت ہوئی، حضرت کا اسم گرامی ، علمی کارنامے اور قومی و ملی خدمات کے بارے میں برابر سنتا رہا۔ آپ کو اللہ تعالی نے اعلی اخلاق ، بلند کردار ، تقوی و طہارت ، صدق و امانت ، اخلاص و للہیت اور علمی و عملی قابلیت جیسی بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ آپ متبحر عالم، مادر زاد ولی، بے مثال سیاسی قائد، قوم و ملت کے سچے محافظ اور بے لوث خادم دین تھے، ایسے لوگ مدتوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
نام ونسب:
حضرت مولانا زاہد حسن صاحب ،بن چودھری محمد اسماعیل، بن قلندر بخش ،بن محمد علی، بن کریم الدین۔
پیدائش:
جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے اس وقت کسی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ آگے چل کر کتنی بڑی شخصیت کا مالک ہوگا اور علم و فضل کے کس مقامِ بلند پر پہنچے گا، اس لیے جن گھروں میں پڑھنے لکھنے کا ماحول نہیں ہوتا، اُن میں عموماً بچوں کی تاریخ پیدائش محفوظ رکھنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا ، یہی وجہ ہے کہ اکثر بڑے لوگوں کی صحیح اور مکمل تاریخ پیدائش کسی کو معلوم نہیں ، حضرت مولانا زاہد حسن صاحب نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی اس میں ایک حد تک دین داری اور عبادت کا شوق تو تھا؛ لیکن وہ کوئی تعلیم یافتہ اور علمی گھرانہ نہیں تھا؛ اس لیے آپ کی تاریخ پیدائش کے متعلق صرف اتنا معلوم ہوسکا کہ آپ ۱۹۱۸ء کے کسی مہینے میں پیدا ہوئے۔
وطن:
موضع ابراہیمی آپ کا آبائی وطن ہے،جو قصبہ سرساوہ سے شمال کی جانب تقریبًا تین کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، یہاں سے تقریباً ۱۸؍ کلو میٹر کی دور ی پر جانبِ مشرق میں شہر سہارنپور واقع ہے۔ گاؤں کی آبادی کا بیش تر حصہ مسلم گوجروں پر مشتمل ہے۔یہاں کے باشندے غیور ، جرأت مند، اور سخی طبیعت واقع ہوئے ہیں۔آپ کے اجداد میں تو یہ وصفِ محمود کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
خاندان:
آپ کے والد ماجد چودھری محمد اسماعیل ایک دین دار، صوم وصلاۃ کے پابند ، شریف الطبع انسان تھے،آپ اگر چہ علم ظاہری سے بے بہرہ تھے؛ مگر سینہ میں قلب سلیم رکھتے تھے۔
آپ کے دادا چودھری قلندر بخش بڑے سخی ، مہمان نواز ، غریب پرور ، نہایت دین دار و عبادت گذار شخص تھے، پیشہ سے کاشتکار تھے، آپ کا شمار علاقہ کے بڑے کاشتکاروں میں ہوتا تھا، تقریباً ساڑہے سات سو بیگھہ زمین آپ کی ملکیت تھی۔ مشہور ہے کہ چودھری قلندر بخش ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کو قرض دلوا دیا کرتے تھے؛ مگر غربت کی وجہ سے لوگ قرض واپس نہ کرپاتے تھے، جس کی وجہ سے آپ کی اکثر زمین قرضہ میں چلی گئی،صرف دو سو (۲۰۰) بیگھہ زمین بچی، ساڑھے پانچ سو بیگھہ زمین لوگوں کے قرضوں کی ادائیگی میں بک گئی،یہ آپ کی سخاوت ہی کا اثر تھا کہ یہ گاؤں دور دراز تک’’ قلندر بخش والی ابراہیمی‘‘ کے نام سے مشہور ہوگیا تھا۔
آپ نے ایک عالم دین کو کھیت میں بلواکر ان سے حدیث کی مشہور کتاب ’’مشارق الانوار‘‘ پڑھواکر سنی تھی۔ اس کی بہت سی احادیث آپ کو یاد ہوگئی تھیں۔ آپ کی سخاوت اور مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ آپ کا کھیت’’دمجھیڑہ‘‘ اور ’’چلکانہ‘‘ کے راستے پر تھا، وہاں سے گزرنے والے اکثر راہ گیروں کو بلا تفریق مذہب و ملت صرف انسانیت کی بنیاد پر کھانا کھلاتے اور پانی پلاتے تھے۔ گاؤں میں بھی شاید ہی کوئی دن ایسا گذرتا ہو گا جس میں آپ کے یہاں کوئی مسافر یا مہمان نہ رہتا ہو۔ رات میں دیر سویر کوئی راہ گیر گاؤں میں آجاتا،تو گاؤں والے اسے آپ کی بیٹھک میں چھوڑ جاتے تھے، وہاں اس کی پوری خاطر مدارات ہوتی تھی۔
آپ کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی اللہ دی تھا، موضع ’’دابکی‘‘ ضلع سہارنپور کی رہنے والی تھی، بڑی نیک صالحہ، ذاکرہ شاکرہ عورت تھی، مہمانوں کی خدمت بڑے شوق سے کرتی تھی، جس وقت بھی دیر سویر مہمان آجاتے کھانا بنانے میں کبھی سستی نہ کرتی، آٹا خود اپنے ہاتھ سے پیسا کرتی تھی اور چکی چلاتے ہوئے کوئی نہ کوئی ذکر وردِ زبان رہتاتھا۔
ابتدائی تعلیم:
موضع شاہ پورہ نزد قصبہ پٹھیڑ و چلکانہ ضلع سہارنپور میں آپ کی ایک پھوپھی تھیں جو آپ سے بہت محبت کرتی تھیں، وہ آپ کو اپنے ساتھ موضع شاہ پور ہ لے گئیں، وہیں ایک مکتب میں آپ نے اپنے عظیم علمی سفر کا آغاز کرتے ہوئے ابتدائی قاعدہ پڑھا۔
اس کے بعد آپ کو مدرسہ اسلامیہ رشیدیہ جامع مسجد قصبہ سرساوہ میں داخل کردیا گیا،جہاں مولانا سید محمد شیر شاہ ہزراوی امامت و خطابت کے ساتھ تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے ،آپ نے مولانا سید محمد شیر شاہ صاحب سے قرآن کریم ناظرہ اور فارسی کی مکمل تعلیم حاصل کی۔
حضرت مولانا سید شرشاہ صاحب ؒ موضع ہری پور ضلع ہزارہ پاکستان کے رہنے والے تھے، بڑے علم پرور ، مخلص، جفا کش، ماہر علوم و فنون، ذاکر و شاغل بزرگ تھے، کئی سال جامع مسجد سرساوہ میں امامت و خطابت اور تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دینے کے بعد مدرسہ اشرف العلوم موضع آہبہ نزد قصبہ نانوتہ ضلع سہارنپور منتقل ہوگئے تھے۔
بغرض تعلیم موضع آہبہ میں:
جب آپ کے استاذ محترم مولانا سید شیر شاہ صاحب موضع آہبہ منتقل ہوگئے تو آپ کے داداجناب قلندر بخش صاحب کو آپ کی تعلیم کی بڑی فکر ہوئی کہ کہاں تعلیم دلائی جائے ؟اس سلسلے میں وہ بڑے پریشان تھے کہ اچانک ان کے دوست قاضی عبد الوحید خاں تشریف لے آئے، قاضی صاحب موضع چورہ کے رہنے والے تھے، یہ گاؤں موضع ابراہیمی سے تقریباً پانچ کلو میٹر کے فاصلہ پر جانب شمال میں واقع ہے، اس میں اکثریت پٹھانوں کی ہے اس لیے پٹھانوں والاچورہ سے معروف ہے۔ دوران گفتگو آپ کے دادا نے قاضی صاحب کے سامنے آپ کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا، قاضی صاحب کی موضع آہبہ میں رشتہ داری تھی، انہوں نے فرمایا کہ چودھری صاحب ! پریشانی کی کیا بات ہے؟ زاہد حسن کو بھی اس کے استاذ کے پاس آہبہ بھیج دو،میں ان کو خود لے کر جاؤں گا، چناں چہ قاضی صاحب کے ہمراہ آپ کو موضع آہبہ بھیج دیا گیا ، قاضی صاحب نے اپنے رشتہ داروں سے کہا کہ یہ بچہ اپنا ہے ، اس کا ہر طرح سے خیال رکھنا۔ حضرت فرمایا کرتے تھے کہ :
’’ وہ بیچارے میرا بے انتہاء خیال رکھتے اور بار بار مجھے اپنے گھر آنے کی تاکید کرتے تھے۔‘‘
مگرآپ کی طبیعت میں خود داری اور بے نیازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی؛ اس لیے آپ اپنی تعلیم چھوڑ کر کبھی نہ جاتے تھے۔
مدرسہ اشرف العلوم موضع آہبہ میں آپ نے فارسی اور عربی اول کی تعلیم حاصل کی، آپ اپنے ساتھیوں میں ہمیشہ اول رہتے تھے، گاؤں والے بھی آپ کی ذہانت اور علمی استعداد سے متأثر تھے، امتحان کے موقع پر بعض حضرات خاص طور پر آپ کے امتحان کے وقت ممتحن کے پاس آبیٹھتے اور آپ کے چستی پھرتی کے ساتھ جواب دینے کامنظر دیکھ کر حیرت میں پڑجاتے۔
آپ چوں کہ اپنے استاذ محترم کے ساتھ سرساوہ سے آئے تھے اور خاص شاگرد تھے؛ اس لیے استاذ محترم کے منظور نظر تھے، شاگرد کو بھی اپنے استاذ محترم سے گہرا تعلق تھا؛ اس لیے ان کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھ کران کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے۔
اللہ تعالی نے آپ کو محنت کا جذبہ اور عمدہ ذہن عطا فرمایا تھا، استاذ محترم نے جوہر قابل دیکھ کر بھر پور توجہ فرمائی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو فارسی زبان پر مثالی دسترس حاصل ہوگئی ۔
تکمیل تعلیم:
آپ نے ۱۹۳۴ء میں ازہر ہند دار العلوم دیوبند میں عربی دوم کے لیے امتحان دیا، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب ؒ نے داخلہ امتحان لیا، اعلی نمبرات سے کامیابی حاصل کرکے عربی دوم میں داخل ہوئے۔ داخلہ امتحان کے وقت بھی چورہ والے قاضی عبد الوحید صاحب ساتھ تھے۔
مولانا محمد عارف صاحب نقل کرتے ہیں کہ اباجی فرمایا کرتے تھے کہ :
’’شیخ الادب صاحب نے داخلہ امتحان میں معلوم کیا کہ ماضی کسے کہتے ہیں؟ تو میں نے برجستہ جواب دیا: أما ماضی فعلے را گویند کہ بزمانۂ گذشتہ تعلق دارد ، و آخر او مبنی باشد بر فتحہ۔ تو شیخ الادب صاحب نے فرمایا کہ : مولوی صاحب ! آپ فارسی بھی جانتے ہو؟ فارسی بھی جانتے ہو؟‘‘
اس طرح مادر علمی دار العلوم دیوبند کی علمی روحانی اور پرنور فضاء میں سات سال رہ کر، اپنے وقت کے کبار علماء اور ارباب ِفضل و کمال سے پوری توجہ ، انہماک اور کمالِ خلوص کے ساتھ استفادہ کرتے ہوئے، ۱۹۴۱ء مطابق ۱۳۶۰ھ میں دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی۔
تکمیل تفسیر کے لیے مولانا احمد علی لاہوری کی خدمت میں:
دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث شریف سے فراغت کے بعد ، آپ معروف مفسر قرآن حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوری (جن کی تفسیر کا اس وقت چہار دانگ عالم میں ڈنکا بج رہا تھا) کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے، اور وہاں دورۂ تفسیر کرکے مفسر لاہوری کے ظاہری و باطنی فیوض سے فیض یاب ہوئے۔
اساتذہ کی خدمت و ادب واحترام:
علم میں برکت اور علم کا فیض اساتذہ کی خدمت اور ادب و احترام پر موقوف ہوتا ہے، جو بھی علم و فن کے آفتاب و ماہتاب بن کر افقِ عالم پر چمکے ، یا جن کی علمی خدمات کا فیض دنیا بھر میں پھیلا ، ان کے کردار میں ہمیشہ اساتذہ کی خدمت کا عنصر نمایاں رہا ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کے اندر اپنے اساتذہ کا ادب و احترام و خدمت کا ایسا جذبہ عطا فرمایا تھا کہ اساتذہ آپ کے اخلاق و عادات دیکھ کر یہ شہادت دینے پر مجبور ہوئے کہ طالب علم تو ایسا ہوتا ہے جیسا یہ گاؤں والا۔
آپ کے صاحبزادۂ محترم مولانا محمد عارف صاحب قاسمی کی روایت ہے کہ آپ کے استاذ مولانا شیر شاہ صاحب کو تجارت کا شوق تھا؛ اس لیے وہ چھٹی کے بعد کپڑے کی تجارت کے لیے آس پاس کے مواضعات میں چلے جایا کرتے تھے، کپڑوں کا گھٹہ آپ کی کمر پر ہوتا اور میٹر استاذ محترم کے ہاتھ میں ، راستے میں آتے جاتے آپ کو سبق سمجھاتے ، کبھی سبق سنتے اور کبھی آگے پڑھاتے ۔ آپ اس خدمت کو بڑی سعادت سمجھ کر خوشی خوشی انجام دیتے، ناگواری کا خیال تک بھی دل میں نہ لاتے تھے ۔
طلب علم میں محنت:
آپ کو اللہ تعالی نے اعلی درجہ کی ذہانت و ذکاوت سے نوازا تھا؛ عموما اس طرح کے طلبہ اپنی ذہانت پر اعتماد کرتے ہوئے محنت کم کرتے ہیں ؛ لیکن آپ تحصیل علم میں بڑی محنت کرتے تھے، رات میں بھی بہت کم سوتے تھے،آپ خود فرمایا کرتے تھے:
’’ مجھے یاد نہیں کہ زمانۂ تعلیم میں کبھی باقاعدہ بستر بچھاکر سویا ہوں، ہوتا یہ تھا کہ مطالعہ کرتے کرتے نیند کا غلبہ ہوجاتا ، تو کبھی کتاب اوپر میں نیچے، اور کبھی کتاب نیچے اور میں اوپر ہوتا تھا۔‘‘
یہی وجہ تھی کہ آپ کونہ صرف درسی کتابیںاچھی طرح یاد تھیں؛ بلکہ بہت سی درسی کتب کے حواشی تک یاد ہوگئے تھے، اور امتحان میں ہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوتے تھے، دورۂ حدیث شریف کی بعض کتابوں میں آپ کے نمبرات ۵۱، ۵۲،۵۳ تک ہیں۔
آپ کے اساتذہ:
جن علماء، فقہاء، محدثین ، مفسرین، اساطین علم و فن اور باخدا بزرگوں سے آپ نے زمانہ طالب علمی میں استفادہ کیا ، ان میں مولانا سید محمد شیر شاہ ہزراوی، صاحب ’’ فتح الملہم ‘‘ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ، حضرت مولانا میاں اصغر حسین صاحب دیوبندی، امام المعقولات حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی، مولانا عبد السمیع صاحب دیوبندی، مفتی ریاض الدین صاحب بجنوری، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ،شیخ التفسیر حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی،حضرت مولانا ظہور حسن صاحب دیوبندی ( جو حضرت مفتی شفیع صاحب کے حقیقی چچا تھے)، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی اور شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
آپ کے رفقاء درس:
مولانا عظیم الدین صاحب انبہٹوی اور مولانا سید خالد سیف اللہ صاحب گنگوہی آپ کے نمایاں رفقاء درس ہیں۔
تدریس:
تحصیل علم سے فراغت کے بعد ، آپ نے مدرسہ سراج العلوم موضع دمجھیڑہ نزد قصبہ چلکانہ ضلع سہارن پور سے اپنے طویل تدریسی سفر کا آغاز کیا، یہ مدرسہ حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم صاحب رائپوری نور اللہ مرقدہ کا قائم کردہ ہے۔ آپ پوری زندگی اسی مدرسہ میں درس و تدریس اور طلبہ کی تعلیم و تربیت کی خدمت انجام دیتے رہے۔ہفتہ میں دو دن( جمعرات و جمعہ کو) جامعہ احمد العلوم خان پور نزد قصبہ گنگوہ میںبھی جلالین شریف کا درس دیا کرتے تھے۔
بیعت و خلافت:
آپ اپنے محبوب استاذ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد صاحب مدنی قدس سرہ سے بیعت ہوئے ، اور از اول تا آخر سلوک کے تمام مراحل حضرت شیخ الاسلام کے زیر نگرانی طے کئے؛ لیکن ابھی اجازت و خلافت کی نوبت نہیں آئی تھی کہ حضرت مدنی کا وصال ہوگیا ۔ حضرت شیخ الاسلام اپنی حیات میں کئی بار آپ کو خانقاہ رائپور کی طرف متوجہ فرماچکے تھے، اس لیے حضرت مدنی کے وصال کے بعد حضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحب رائپوری نور اللہ مرقدہ سے اصلاحی تعلق قائم کیا ،چوں کہ تصوف و سلوک کی تمام منازل طے فرماچکے تھے اس لیے کچھ ہی دنوں کے بعد حضرت رائپوری نے آپ کو خلعت خلافت عنایت فرمادی۔ اس کے علاوہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ سے بھی آپ کو اجازتِ بیعت حاصل تھی۔ ایک مرتبہ حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنی موضع ماجری نزد قصبہ رام پور منیہاران آئے ہوئے تھے، وہاں مولانا مدنی نے یہ اعلان فرمایا کہ :
’’ والد محترم حضرت شیخ الاسلام میرے خواب میں تشریف لائے ، اور فرمایا کہ مولانا زاہد حسن صاحب کی ہمارے ذمہ ایک امانت ہے ، وہ امانت ہماری جانب سے تم ادا کردو، اس لیے میں حضرت والد صاحب کے حکم سے اور انہی کی طرف سے مولانا زاہد حسن صاحب کو اجازتِ بیعت دیتا ہوں۔ ‘‘ (تذکرہ زاہد ص۶۵)
آپ ہر سال گاؤں کی مسجد میں (از ۲۱ شعبان تا آخر رمضان )چالیس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے، اس دوران مدرسہ سراج العلوم موضع دمجھیڑہ کے ایک طالب علم کے علاوہ کسی سے بھی بات چیت نہیں کرتے تھے۔۱۹۷۷ء تک پابندی سے محلہ ہی کی مسجد میں ۴۰ دن کا اعتکاف فرماتے رہے، ۱۹۷۷ء سے مولانا اسعد صاحب مدنی کے ساتھ دیوبند میں رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف شروع کیا ، جو آپ کی وفات (۱۹۸۷ء) تک جاری رہا۔
۲۴ گھنٹے میں ایک قرآن شریف پڑھنے کے علاوہ ،بلاناغہ روزانہ سوا لاکھ پاس انفاس ،صبح کو جواہر خمسہ اور دلائل الخیرات ،اور شام کو نماز کے بعد حزب البحر سفرحضر میں پڑھنے کا معمول تھا۔آپ حافظ نہیں تھے ؛ لیکن یہ آپ کی کرامت تھی کہ تراویح میں حافظ صاحب کی غلطی پکڑ لیا کرتے تھے۔
مولانا خورشید احمد صاحب سابق امام جامع مسجد سرساوہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میرے پاس ایک شخص آیا ، اس نے کہا کہ میں بہت دنوں سے ذکر اللہ میں لگا ہوا ہوں ؛ لیکن میرا قلب جاری نہیں ہوتا۔ اسی اثناء میں حضرت مولانا زاہد حسن صاحب تشریف لے آئے ، میں نے کہا کہ حضرت ! یہ شخص پریشان ہے ، بہت دنوں سے اللہ کا ذکر کررہا ہے ؛ لیکن اس کا قلب جاری نہیں ہوتا ، اس کے لیے دعا کردیجئے ۔ مولانا نے اس شخص کی کمر پر ہاتھ رکھا اور کچھ پڑھا، تو فوراً اس شخص کا قلب جاری ہوگیا، اور وہ خوشی خوشی مولانا کو دعا دیتا ہوا چلاگیا۔
مولانا کے رفیقِ سفر وحضرمنشی عبد الوحید خاں ساکن پٹھیڑ نزد چلکانہ بیان کرتے ہیں کہ کمرہ میں ایک الماری تھی جس پر تالا لگا ہوا تھا، چابی تھی نہیں، اس الماری میں کچھ سامان رکھا ہوا تھا، میں نے تالا توڑنے کا ارادہ کیا ، تو مولانا نے فرمایا کہ منشی جی اسے توڑ کر کیا کرو گے،یہ تو خود ہی کھل جائے گا،اس کے بعد مولانا نے اس تالے کی طرف انگلی سے اشارہ کیا ، اور تالا کھل کر نیچے گرگیا؛ حالاں کہ تالے کو نہ میرا ہاتھ لگا نہ مولانا کا۔
آپ کے خلفاء:
جن حضرات نے آپ کے دامن فیض سے وابستہ ہوکر سلوک کی منازل طے کیں، اور حضرت کی طرف سے اجازت و خلافت سے نوازے گئے وہ یہ ہیں :
(1) صاحب زادۂ محترم حضرت مولانا مفتی محمد طیب صاحب قاسمی ۔
(2) حضرت مولانا مفتی عبد القیوم صاحب رائپوری۔
(3) حضرت مولانا محمد قاسم صاحب میواتی شیر پنجاب۔
(4) ماسٹر رشید الدین صاحب (شاہ پور پاکستان)
(5)حافظ پھول محمد صاحب (موضع دبھیڑہ کلاں)
(6) حافظ منظور احمد صاحب ( موضع ٹوڈر پور)
اوصاف و کمالات:
تقوی و طہارت اور اخلاق و اعمال کی اصلاح و پاکیزگی کے بغیر دین کا علم کماحقہ حاصل نہیں ہوتا ، اور اگر حاصل ہوجائے تو اس سے پورانفع نہیں ہوتا۔تقوی و پرہیزگاری اور اصلاحِ اعمال و اخلاق کا وصف آپ کے اندر زمانۂ طالب علمی ہی میں پیدا ہوگیا تھا، یہ اسی کا اثر تھا کہ مشکوک لقمہ کھانے کے بجائے فاقہ کرنا گوارا کرلیا کرتے تھے۔ آپ کے ہم درس اور ہم سفر ساتھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے حضرت مولانا موصوف کو حد در جہ محتاط اور متقی پایا ہے۔
آپ کے درسی ساتھی مولانا خالد سیف اللہ صاحب گنگوہی زمانہ طالب علمی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست نے دیوبند میں چند ساتھیوں کی دعوت کی ، جس میں مولانا زاہد حسن صاحب بھی تھے، داعی نے ایک پڑوسی کی مرغی پکڑی ، اور بھنوا کررفقاء کو کھلادی، کئی روز کے بعد یہ رازِ شرارت ہمارے درمیان فاش ہوگیا، تو حضرت مولانا زاہد حسن صاحب اس سے بڑے پریشان ہوئے اور انہوں نے اپنے ذاتی خرچ کو کم کردیا ، یہاں تک کہ اپنے گاؤں ابراہیمی سے دیوبند تک سفر پیدل طے کیا اور کرایہ کے پیسے بچاکر اور کچھ دیگر اخراجات کو سمیٹ کر مرغی والے کے پاس گئے اور اس سے معذرت کرکے اسے مرغی کی قیمت ادا فرمائی۔اس لیے میں کہتا ہوں کہ مولانا زاہد حسن صاحب کو بچپن ہی میں ولایت کا مقام حاصل ہوگیا تھا۔
اللہ تعالی نے آپ کو بے مثال استقامت، صبر و شکر اور طلب علم کی راہ میں مصائب و مشکلات برداشت کرنے کا وصف بھی خوب عطا فرمایا تھا ۔ جود و سخا اور ایثار و ہمدردی کا وصف تو بچپن ہی سے آپ کو ورثہ میں ملاہوا تھا ، آپ کا گھر انہ اس عظیم وصف میں دور دور تک مشہور تھا۔ عفو و در گزر، مہمان نوازی،عاجزی و انکساری ، تواضع و بے نفسی، سادگی، خلوص و للہیت آپ کی پہچان تھی۔
زمانۂ طالب علمی میں آپ دیوبند کے محلہ بیرون کوٹلہ میں امامت کرتے تھے، محلہ والوں کے ذمہ کھانا طے تھا،بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ عشاء کی نماز کے بعد کھانا لینے نمبر والے کے یہاں جاتے تو عورتیں کہہ دیتیں : آج تو حافظ جی کا کھانا رکھنا یاد نہیں رہا، کل لے جایئو ، تو آپ خالی ٹیفن ایسے واپس لے آتے جیسے کھانا لے کر آئے ہوں، تاکہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ حافظ صاحب کو کھانا نہیں ملا ، بعض مرتبہ کئی کئی روز اسی طرح گذر جاتے ؛ مگر کبھی کسی مقتدی کے سامنے اس کا اظہار نہیں کیا؛کبھی محلہ والوں سے کھانے کے متعلق سوال کیا نہ شکوہ ، نہ امامت چھوڑی، کھانا مل گیا تو کھالیا ورنہ فاقہ کرلیا۔ ادھر دار العلوم سے ملنے والا کھانا اپنے کسی ایسے غریب ساتھی کو دیدیا کرتے تھے جس کا داخلہ غیر امدادی ہوتا تھا، اورقیمتاً کھانا جاری کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔
جب آپ کے درسی ساتھی حضرت مولانا عظیم الدین صاحب انبہٹوی رحمہ اللہ کی شادی زمانۂ طالب علمی ہی میں ہوگئی اور وہ اپنی اہلیہ کو دیوبند لے آئے، تو آپ نے اپنا ٹکٹ طعام مستقل طور پر ان کو دیدیا تھاتاکہ ان کی اہلیہ کے کھانے کا انتظام ہوسکے، اور خود کو بیرون کوٹلہ والوں کے رحم و کرم پر چھوڑدیا۔ اس سے بڑھ کر اس نوعمری اور طالب علمی کے زمانہ میں ایثارو ہمدردی کی مثال اور کیا ہوگی؟
حکومتِ وقت کی جانب سے آپ کو ریل پاس ملا ہوا تھا ، لیکن آپ نے کبھی اسے استعمال نہیں کیا، ہمیشہ ٹکٹ خرید کر سفر فرمایا کرتے تھے،ایک بار جلدی میں ٹکٹ لیے بغیر انبالہ سے ٹرین میں سوار ہوگئے، منشی عبد الوحید صاحب ساتھ تھے، ٹی ٹی نے ٹکٹ مانگا ، تو منشی جی نے کہا کہ ہم جلدی کی وجہ سے ٹکٹ نہیں لے سکے، آپ انبالہ سے سرساوہ تک کے ٹکٹ کے پیسے لے لیں، ٹی ٹی نے کہا گاڑی لاہور سے آئی ہے ، اس لیے آپ کو لاہور سے سرساوہ تک کے ٹکٹ کے پیسے دینے پڑیں گے،جب ٹی ٹی انبالہ سے سرساوہ تک کے ٹکٹ کے پیسے لینے کے لیے تیار نہیں ہوا،تو مولانا نے اپنا پاس دکھایا، پاس دیکھ کر ٹی ٹی معافی مانگنے لگااور کہا کہ میں آپ سے پیسے نہیں لوں گا؛ لیکن آپ حد درجہ متقی پرہیز گار تھے، آپ نے کہا کہ ریل گاڑی ہماری ہے نہ تمہاری، اس لیے ہم بغیر ٹکٹ کے پیسے دئیے سفر نہیں کرسکتے ، اور آپ کو پیسہ معاف کرنے کا کوئی حق نہیں ، چناں چہ ٹی ٹی کے انکار کے باوجود آپ نے اصرار کرکے پیسے دے کر انبالہ سے سرساوہ تک کے دو ٹکٹ بنوائے۔
سیاست اور جمعیت علماء ہند سے وابستگی:
حضرت کی ذات میں خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، ہر وقت آپ کے ذہن و دماغ پر یہی فکر سوار رہتی تھی کہ کس طرح مسلم قوم کو آگے بڑھایا جائے،خدمت خلق ہی کے جذبہ کے تحت ۱۹۴۶ء میں آپ نے کانگریس کے ٹکٹ پر M. L. A کا الیکشن لڑا، اور کامیاب ہوئے۔ ۱۹۵۲ء تک آپ ایم ۔ ایل۔ اے رہے ، ان پانچ سالوں میں مسلم قوم کی ہر ممکن خدمت کی ۔ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں آپ کا ریکارڈ ہے کہ اپنی پوری سیاسی زندگی میں آپ نے کبھی حکومت کا پیسہ اپنے ذاتی مفاد میں استعمال نہیں کیا ۔ اس کے بعد حج کے لیے تشریف لے گئے ، سفر حج سے واپسی کے بعد عملی طور پر سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی ، پھر ۱۹۷۷ء میں بعض اکابرین کے شدید اصرار پر کانگریس کے ٹکٹ پر دو مرتبہ ممبر پارلیمینٹ کا الیکشن لڑا؛ مگر کامیاب نہ ہوسکے۔
تقریباً تیس سال جمعیۃ علماء ضلع سہارنپور کے صدر رہے۔اور جب سہارن پور میں شرعی پنچایت قائم ہوئی ، تو آپ اس سے وابستہ ہوکر تا حیات قوم و ملت کی خدمت کرتے رہے، بہت سے عائلی مسائل کے فیصلے کرائے ،عورتوں کے بہت سے الجھے ہوئے مسائل باہمی صلح کراکے یا آخری درجہ میں فسخ کی صورت میں حل کرائے۔ کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ: ’’ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی انہی شرعی و پنچایتی مسائل کی وجہ سے مغفرت فرمادے۔‘‘
قومی وملی خدمات:
جب آپ تحصیل علم سے فارغ ہوکر وطن لوٹے ، اُس وقت ضلع سہارنپور اور ضلع مظفر نگر میں علمی ، عملی اور معاشرتی اعتبار سے گوجر برادری کی صورت حال بڑی خراب تھی، چاروں طرف جہالت کا دور دورہ تھا، دور دور تک برادری میں کوئی عالم، حافظ؛ بلکہ بعض دیہاتی علاقوں میں تو کوئی ناظرہ خواہ بھی ڈھونڈنے ہی سے ملتا تھا، کسی کا انتقال ہوجاتا تو نماز جنازہ پڑھانے والا بھی مشکل ہی سے دستیاب ہوتا تھا،مدارس اور مکاتب بھی نہ ہونے کے درجہ میں تھے، چوری ، ڈاکہ زنی اور لڑائی جھگڑا ایک عام سی چیز تھی،دینی تعلیم کی طرف توجہ تھی نہ رغبت ، اسلام کی بنیادی تعلیمات اور ضروری عقائد سے بھی لوگ بے بہرہ تھے۔ہندوانہ ماحول میں رہنے کی وجہ سے بہت سی غیر شرعی و اسلام مخالف رسمیں شادی بیاہ کا لازمی حصہ بن چکی تھیں۔
مولانا نے جب اپنی برادری کی یہ تعلیمی ، دینی اور معاشرتی پس ماندگی دیکھی، تو علاقے میں مدارس و مکاتب کے قیام اور معاشرے میں پھیلی ہوئی جاہلانہ رسوم و رواج کی اصلاح کو اپنا مشن بنالیا، پیدل ، بگیوں میں اور اپنی گھوڑی پر پورے علاقے میں گھومے، شادی بیاہ میں پائی جانے والی غیر اسلامی رسوم کو ختم کیا، لوگوں کو دینی تعلیم کی اہمیت سمجھائی، مدارس و مکاتب کے قیام کے لیے ذہن سازی کرکے جگہ جگہ مدارس و مکاتب قائم کیے،جو اِکّے دُکّے مکتب پہلے سے قائم تھے ان کو فعال کیا،آپ کی کد و کاوش اور جہد مسلسل سے جو مدارس و مکاتب قائم ہوئے ، یا پہلے سے قائم تھے اور آپ کی سرپرستی میں فعال اور ترقی کی راہ پر گام زن ہوئے ، ان میں جامعہ احمد العلوم خان پور، جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت، مدرسہ ناشر العلوم گڑھی جلال پور،مدرسہ کنز العلوم ٹڈولی، مدرسہ سراج العلوم دمجھیڑہ، مدرسہ سبیل الہدی سنہٹی اور مدرسہ احسن العلوم قصبہ کیرانہ بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ یہ آپ کی مخلصانہ محنت ، قوم میں دینی و تعلیمی شعور پیدا کرنے کے تئیں شب و روز کی تگ و دو ، رات دن کی دوڑ دھوپ ،جہد مسلسل اور دعائے نیم شبی ہی کا ثمرہ ہے کہ آج آپ کی قوم وبرادری میں جہاں ایک طرف بافیض دینی مدارس و مکاتب کی کوئی کمی نہیں ، وہیں دوسری طرف علماء، مفتیان کرام، حفاظ ، قراء ، خطباء ، مبلغین ، مصنفین، محدثین ، مدرسین اور صاحب نسبت بزرگوں کی ایک پوری کھیپ قوم و ملت کی خدمت میں مصروف ہے۔
آپ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ تمام مسلمان خواہ کسی بھی علاقے ، برادری اور رنگ و روپ سے تعلق رکھتے ہوںآپس میں دینی بھائی ہیں ، حسب و نسب کی بنیاد پر کسی کو کسی پر کوئی فوقیت و برتری حاصل نہیں، فضلیت اور عند اللہ مقبولیت کا دار مدار اتباعِ سنت و شریعت اور تقوی و طہارت پر ہے، ذات و برادری کی تفریق کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ،چناں چہ یہی وجہ ہے کہ آپ کی خدمات کا دائرہ صرف اپنی برادری کی حد تک محدود نہیں تھا؛ بلکہ ایک عالم اور سیاسی لیڈر ہونے کی حیثیت سے ذات پات سے اوپر اٹھ کر آپ قوم مسلم کی جتنی خدمت کرسکتے تھے اس میں آپ نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک کے بعد جب پورے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے، آپ کے قریب ہریانہ میں ارتداد کا فتنہ تیزی سے پھیل رہا تھا، ہندو مسلمانوں کو پریشان کررہے تھے، جوان لڑکیوں کی عزت لوٹی جارہی تھی، نوجوان مردوں کو قتل کیا جارہا تھا، ایسے پریشان کن، نازک اور خوف ناک حالات میں آپ اپنی بندوق لے کر صبح گھر سے نکل جاتے،اورپورے دن گھوم پھر کر مسلمانوں کے جان و ایمان کی حفاظت کرتے۔ حالات اتنے پر خطر تھے کہ آپ خود فرماتے ہیں کہ ’’ اس زمانے میں صبح گھر سے نکلنے کے بعد شام کو زندہ وسلامت واپس لوٹنے کی امید نہیں ہوتی تھی۔‘‘
ایک مرتبہ آپ موضع ڈھکہ تشریف لے گئے، یہ قصبہ سرساوہ کے پاس راج پوتوں کا گاؤں ہے ،وہاں آپ نے دیکھا کہ ایک ہندو نے بہت سارے مسلمانوں کو جمع کر رکھا ہے اور ان سے کچھ بات کر رہا ہے، آپ وہاں پہنچے تو وہ ہندو آپ کو دیکھ کر سلام کرکے چلاگیا، آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ اس نے تم سب کو کس لیے جمع کیا ہوا تھااوروہ تم سے کیا بات کررہا تھا،ان لوگوں نے بتایا کہ اس کمبخت نے ہمیں مرتد کرنے کے لیے جمع کیا تھا، اور وہ اسی حوالے سے ہم سے بات کررہا تھا؛ لیکن اللہ تعالی نے ہمارے ایمان کی حفاظت کے لیے بروقت آپ کو بھیج دیا، آپ نے دیکھا کہ اس ہندو نے مسلمانوں کو ہندو بناکر ان کی پیشانی پر تلک لگانے کے لیے کچھ رنگ بھی گھول رکھا تھا، جو اس نے آپ کو آتا دیکھ کر چار پائی کے نیچے چھپادیا تھا، یہ صورت حال دیکھ کر آپ کو بہت رنج ہوا ،آپ نے مسلمانوں کو سمجھایا ،ان کے اندر ایمان و اسلام پر جمے رہنے اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات، پریشانیوں اور تکالیف کو برداشت کا جذبہ بیدار کیا، اس طرح آپ کی بروقت کوشش سے پورا گاؤں مرتد ہونے سے بچ گیا۔
آپ کی پوری زندگی قوم و ملت کی خدمت میں گذری۔کسی کو پیسے کی ضرورت ہوتی اس کا مالی تعاون فرماتے ، بسا اوقات دوسروں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خود مقروض ہوجاتے، کسی کو ملازمت یا کسی مقدمے میں آپ کی سفارش یا مدد کی ضرورت ہوتی ، تو اس کے لیے عملی دوڑ دھوپ میں اپنے مرتبے و حیثیت کا لحاظ کرتے نہ اپنی صحت کا، اس کے لیے اپنی جیب سے خرچ کرنا پڑتا تو اس سے بھی دریغ نہ فرماتے۔
حضرت مولانا زاہد حسن صاحب اورجامعہ بدر العلوم:
جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت ایک مکتب کی شکل میں پہلے سے قائم تھا، اس وقت حضرت مولانا محمد کامل صاحب نور اللہ مرقدہ ٹپرانہ میں امام تھے، آپ ہی کی توجہ ، کوشش اور خواہش پر حضرت مولانا محمد کامل صاحب بدر العلوم میں بحیثیت مہتمم تشریف لائے، اور آپ کے زیر سرپرستی کام شروع کیا، آپ ہر سال امتحانات میں تشریف لاتے، تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیتے ، تعلیم و تربیت کی عمدگی کے لیے قیمتی مشورے دیتے ،اور پوری زندگی نہایت اخلاص و باریک بینی سے مدرسے کی سرپرستی و نگرانی فرماتے رہے، اس طرح آپ کی کام یاب نگرانی و سرپرستی میں مدرسہ بڑی تیزی سے اپنے تعلیمی و تعمیری ترقی کے سفر کی منزلیں طے کرتا ہوا مکتب سے جامعہ کی شکل اختیار کرگیا۔
آج جامعہ میں حفظ وناظرہ قرآن پاک، تجوید وقراء ت، ہندی، انگلش اور فارسی کے علاوہ، عربی اول سے دورۂ حدیث شریف اور تکمیل افتاء تک نہایت ٹھوس اور معیاری تعلیم کا نظم ہے۔ ایک ہزار سے زائد بیرونی طلبہ دار الاقامہ میں رہتے ہیں ،مقامی و بیرونی طلبہ و طالبات کی کل تعداد دو ہزار سے متجاوز ہے جن کی تعلیم و تربیت اور نگرانی کے لیے اسی (80) سے زیادہ اساتذہ و ملازمین خدمتِ دین میں مصروف ہیں۔ دورۂ حدیث شریف شوال ۱۴۳۱ھ میں شروع کیا گیا تھا، جو بحمد اللہ پوری کامیابی کے ساتھ علوم حدیث کی نشر و اشاعت کا ذریعہ بنا ہو ا ہے۔ گذشتہ عشرے میں دو سو سے زائد طلبہ دورۂ حدیث سے فراغت پاکر، ملک کے مختلف صوبوں میں علوم اسلامیہ کی خدمت واشاعت میں مصروف ہیں، تکمیل افتاء کا شعبہ سال گزشتہ(شوال ۱۴۴۰ھ میں) قائم کیا گیا ہے۔ یہ مفکر ملت حضرت مولانا زاہد حسن صاحب نور اللہ مرقدہ کی سرپرستی اور حضرت اقدس الحاج مولانا محمد کامل صاحب قدس سرہ کی جد وجہد ہی کا نتیجہ ہے کہ الحمد للہ جامعہ کا نظام تعلیم وتربیت اپنی ہم عصر درس گاہوں میں ایک امتیازی شان رکھتا ہے، اور جامعہ شب وروز تعلیمی، تعمیری اور تربیتی ہر طرح کی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ایک تناور درخت کی شکل میں عوام وخواص کو فیض یاب کررہاہے، جامعہ کی ہمہ گیر علمی ودینی خدمات اور عمدہ معیار تعلیم وتربیت کا اثر ہے کہ جامعہ کی شہرت بیرونِ ملک تک پہنچ چکی ہے۔
سفر آخرت:
پانچ روزہ تعلیمی و اصلاحی دورے سے واپسی پر ، سرساوہ سے ابراہیمی جاتے ہوئے آپ گھوڑی سے گر کر زخمی ہوئے،دماغ کی رگ پھٹ گئی ، علاج کے لیے سہارن پورسول ہسپتال لے جایا گیا؛ مگر جان بر نہ ہوسکے اور علم و فضل کا یہ آفتاب ۲۷ مارچ ۱۹۸۸ء مطابق ۸ شعبان ۱۴۰۸ھ بروز اتور صبح ۸بجے ، سہارن پور سول ہسپتال میں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا، جنازہ ابراہمی لایا گیا، حضرت مولانا شمیم احمد صاحب دیوبندی سابق استاذ دار العلوم دیوبند اور حضرت مولانا قاری محمد الیاس صاحب جمنانگری سابق استاذ دار العلوم دیوبند وغیرہ نے غسل دیا، نمازِ عصر کے آپ کے صاحبزادہ حضرت مولانا مفتی محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ نے نماز جنازہ پڑھائی، اس کے بعد جنازہ آبائی قبرستان (باغ میں) لایا گیا، اور آپ کے والد محترم اور دادا جان کے جوار میں آپ کی آخری آرام گاہ بنی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں