مسلمان کے لیے کسی کافر میت کو جلانا کیسا ہے
سوال: گذشتہ کچھ مہینوں قبل مختلف علاقوں میں کچھ مسلم نوجوان حالات کی نزاکت کی وجہ سے غیر مسلم بردران وطن کی نعشوں کو جلانے کا کام کرتے رہے ہیں۔ ان کا یہ فعل کیسا ہے ؟
الجواب و باللہ التوفیق:
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِهِ حَيًّا۔
میت کی ہڈی کو توڑنا اسکی زندگی میں اسے توڑنے کی طرح ہے۔ (سنن أبی داود: 3207)
گویا زندہ کی ہڈی توڑنا اور میت کی ہڈی توڑنا شریعت اسلامیہ میں برابر ہے۔
احترام آدمیت کا درس دین اسلام کا طرہ امتیاز ہے۔ مرنے کے بعد بھی شریعت نے انسانی جسم کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح اگر کوئی میت کو جلاتا ہے تو وہ اسی اصول کے تحت زندہ کو جلانے کے برابر جرم کرنے کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔ لہذا کسی طور پر بھی کسی بھی میت کو جلانے کا تصور اسلام میں نہیں پایا جاتا، خواہ میت مسلمان کی ہو یا غیر مسلم کی ۔
بناء بریں اسلام میں کسی بھی انسان کو جلانے کی ممانعت ہے؛ اس لئے مردہ کو آگ لگانا جائز نہیں۔ اس لیے جن مسلم لوگوں نے ایسا کیا ہے، وہ ناجائز کام کے مرتکب ہوئے ہیں، انہیں چاہئیے کہ اپنے اس گناہ سے صدق دل سے توبہ کریں۔ اور آئندہ ایسے ناجائز کاموں سے بچیں۔
مشہور حنفی فقیہ علامہ شامیؒ فرمائے ہیں:
’’ویغسل المسلم ویکفن ویدفن قریبہ الکافر الأصلی عند الاحتیاج من غیر مراعات السنۃ، فیغسلہ غسل الثوب النجس ویلفہ فی خرقۃ ویلقیہ فی حفرۃ‘‘ (ردا المحتار: ۳؍ ۱۳۴)
واللہ اعلم
جاوید خلیل قاسمی
22/ جمادی الاولی 1442ھ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں