اشاعتیں

حضرت مولانا افضال صاحب گنگوہی : نقوش و تاثرات

✒️ محمد جاوید قاسمی بالوی خادم جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت  دو تین روز پہلے واٹس ایپ پر اچانک یہ اطلاع ملی کہ حضرت الاستاذ مولانا افضال صاحب گنگوہی کی طبیعت زیادہ خراب ہے ، گردوں نے کام کرنا بند کردیا ہے، اسی وقت سے ہمارے یہاں جامعہ میں نمازوں کے بعد مولانا کے لیے دعائے صحت کا اہتمام شروع کر دیا گیا ، کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ مولانا کی یہ علالت اتنی مختصر اور مرض الوفات ثابت ہوگی۔ کل صبح بھی نماز فجر کے بعد امام صاحب نے مولانا کی صحت وشفاء کے لیے رقت آمیز دعا کرائی، اس وقت تک کسی کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اب مولانا مرحوم دعائے صحت سے بے نیاز ہو کر اپنے رب حقیقی کے جوار رحمت میں پہنچ چکے ہیں ۔  نمازِ فجر کے بعد جب واٹس ایپ کھولا تو اکثر گروپس میں مولانا کی وفات کی خبر گردش کرتی دیکھ کر دل پر رنج و الم کے بادل چھاگئے ، اور مولانا کی ناگہانی موت نے ایک بار پھر یہ حقیقت تازہ کردی کہ موت کے لیے کوئی عمر متعین نہیں، جیسے ہی آدمی کا وقت پورا ہوجاتا ہے کیا بوڑھا کیا جوان، کیا بچہ کیا ادھیڑ عمر، کیا مرد کیا عورت سب موت کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ کسی کو ہو یا نہ ہو کم...

گھر میں تراویح پڑھنے والے فرض نماز مسجد میں پڑھیں

  سوال:  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔  حضرت ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے ۔ جس گھر میں تراویح کی نماز ادا کی جارہی ہو اسی گھر میں عشاء کی جماعت کرنا کیسا ہے۔ جب کہ مسجد بھی قریب میں ہو ۔کیا گھر میں جماعت سے نماز میں کراہت تحریمی اور ترک جماعت مسجد کا گناہ لازم نہیں آئے گا ،؟  الجواب و باللہ التوفیق: حسب تحریر سوال جب مسجد قریب ہے، تو عشاء کی فرض نماز کو گھر میں پڑھنے کا اہتمام صحیح نہیں، یہ عمل سخت مکروہ ہے، ایسا کرنے والے گناہ گار ہوں گے۔ فرض نماز مسجد میں جماعت سے پڑھنے کے بعد، سنتیں اور تراویح گھر میں آکر پڑھ سکتے ہیں۔   عن علی رضی اللہ عنہ قال: لا صلاة لجار المسجد الا في المسجد. ( مصنف ابنِ ابی شیبہ 3/ 195) و اخرجہ الدار قطنی (رقم 1552) بسندہ مرفوعاً عن جابر بن عبداللہ و ابی ھریرة ، والحاکم فی المستدرک ( رقم898) اتیان المسجد ایضاً واجب کوجوب الجماعۃ، فمن صلاھا بجماعة في بيته اتى بواجب و ترك واجبا آخر .... فالصحیح ان الجماعۃ واجبة مع اتيانها في المسجد، و من اقامها في البيت وهو يسمع النداء فقد اساء و اثم. (اعلاء السنن 4/164) نیز دیکھیں: کتاب النوازل ( 5/ 87) وال...

قوم وملت کا سچا محافظ حضرت مولانا زاهد حسن صاحب ابراهيمي

قوم وملت کا سچا محافظ مفکر ملت حضرت مولانا زاہد حسن صاحب نور اللہ مرقدہ   از قلم : جاوید خلیل قاسمی بالوی  استاذ  حدیث و مفتی جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت حضرت مولانا زاہد حسن صاحب نور اللہ مرقدہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ، مجھے آپ کی زیارت و ملاقات کا شرف تو حاصل نہ ہوسکا ؛ کیوں کہ حضرت کے انتقال کے وقت میری عمرصرف سات سال تھی۔ یہ تو یاد نہیں کہ سب سے پہلے آپ کا اسم گرامی کب سنا، البتہ اتنا یاد ہے کہ جب سے ہوش سنبھالااورعلم و کتاب سے کچھ مناسبت ہوئی، حضرت کا اسم گرامی ، علمی کارنامے اور قومی و ملی خدمات کے بارے میں برابر سنتا رہا۔ آپ کو اللہ تعالی نے اعلی اخلاق ، بلند کردار ، تقوی و طہارت ، صدق و امانت ، اخلاص و للہیت اور علمی و عملی قابلیت جیسی بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ آپ متبحر عالم، مادر زاد ولی، بے مثال سیاسی قائد،  قوم و ملت کے سچے محافظ اور بے لوث خادم دین تھے، ایسے لوگ مدتوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ نام ونسب:   حضرت مولانا زاہد حسن صاحب ،بن چودھری محمد اسماعیل، بن قلندر بخش ،بن محمد علی، بن کریم الدین۔ پیدائش:   جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے اس وقت کسی ک...

سمندری سفر میں شہید ہونے والے کی فضیلت

 سوال: ہمارے یہاں ایک تبلیغی صاحب نے یہ بیان کیا کہ اگر کوئی شخص سمندر پار دعوت دیتے ہوے انتقال کرجاے تو اسکی روح اللہ تعالی بذات خود قبض فرماتاہے۔  گذارش ھیکہ اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں آیا مذکورہ بات درست ھے یا پھر وہی سنی سنائی بات کو آگے چلتی کردینے کے مشابہ ھے؟ ابوالقاسم شاملی  الجواب و باللہ التوفیق: ان صاحب کی یہ بات صحیح نہیں، ایک حدیث میں سمندری سفر میں شہید ہونے والے مجاہدین کے لیے یہ فضیلت آئی ہے، سمندر پار دعوت و تبلیغ کا کرتے ہوئے مرنے والوں کے لیے نہیں۔ حدیث یہ ہے: عن ابی أمامة قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: "شہید البحر مثل شہیدی البر، والمائد فی البحر کالمتشحط فی دمہ فی البر، وما بین الموجتین کقاطع الدنیا فی طاعة اللہ، وإن اللہ عز وجل وکل ملک الموت بقبض الأرواح إلا شہید البحر، فإنہ یتولی قبض أرواحہم ویغفر لشہید البر الذنوب کلہا، إلا الدین ولشہید البحر الذنوب والدین." [سنن ابن ماجہ ، رقم: 2778،باب فضل غزو البحر) ترجمہ: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ”سمندر کا شہید خشکی کے دو شہیدو...

موٹے گدے کو پاک کرنے کا طریقہ

سوال:  اگر گدے میں ناپاکی لگ جائے، یا بچہ پیشاب کردے تو اس کو پاک کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ اورصرف اتنا ہی حصہ پاک کرنا کافی ہے جتنے میں ناپاکی لگی ہے یا پورا گدا پاک کرنا ضروری ہے؟ الجواب و باللہ التوفیق: موٹے گدے کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے دونوں کناروں کو کسی اونچی چیز پر رکھ دیں اور پیشاب کی جگہ پر پانی ڈالیں یہاں تک کہ پانی نیچے سے نکلنے لگے، پھر جب وہ پانی اتنا خشک ہوجائے کہ اس کو چھونے سے ہاتھ میں پانی نہ آئے خواہ تری محسوس ہوتی ہو، دوبارہ پانی ڈالیں، اسی طرح تین مرتبہ کریں۔ پورا گدا دھونا ضروری نہیں، صرف پیشاب کی جگہ دھولیں تب بھی گدا پاک ہوجائے گا۔  بدائع میں ہے: فأما إذا علم أنہ تشرب فیہ فقد قال أبویوسف ینقع في الماء ثلاث مرات ویجفف في کل مرة فیحکم بطہارتہ․ (البدائع: ۱/۲۵۰) واللہ اعلم جاوید خلیل قاسمی  مفتی جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت 23/ جمادی الاولی 1442ھ

مسلمان کے لیے کسی کافر میت کو جلانا کیسا ہے

 سوال: گذشتہ کچھ مہینوں قبل مختلف علاقوں میں کچھ مسلم نوجوان حالات کی نزاکت کی وجہ سے غیر مسلم بردران وطن کی نعشوں کو جلانے کا کام کرتے رہے ہیں۔ ان کا یہ فعل کیسا ہے ؟ الجواب و باللہ التوفیق: ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِهِ حَيًّا۔ میت کی ہڈی کو توڑنا اسکی زندگی میں اسے توڑنے کی طرح ہے۔ (سنن أبی داود: 3207) گویا زندہ کی ہڈی توڑنا اور میت کی ہڈی توڑنا شریعت اسلامیہ میں برابر ہے۔  احترام آدمیت کا درس دین اسلام کا طرہ امتیاز ہے۔ مرنے کے بعد بھی شریعت نے انسانی جسم کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح اگر کوئی میت کو جلاتا ہے تو وہ اسی اصول کے تحت زندہ کو جلانے کے برابر جرم کرنے کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔ لہذا کسی طور پر بھی کسی بھی میت کو جلانے کا تصور اسلام میں نہیں پایا جاتا، خواہ میت مسلمان کی ہو یا غیر مسلم کی ۔ بناء بریں اسلام میں کسی بھی انسان کو جلانے کی ممانعت ہے؛ اس لئے مردہ کو آگ لگانا جائز نہیں۔ اس لیے جن مسلم لوگوں نے ایسا کیا ہے، وہ ناجائز کام کے مرتکب ہوئے ہیں، انہیں...

نفلی حج افضل ہے یا فقراء ومساکین کی امداد؟

سوال: نفلی حج و عمرہ کرنا افضل ہے یا فقراء ومساکین کی امداد و تعاون کرنا ؟ الجواب و باللہ التوفیق:  نفلی حج یا عمرہ کرنا بھی فضیلت والا عمل ہے، اور غرباء پر خرچ کرنا بھی خیرِ کثیر کا حامل ہے، یہ سب نیکی کے کام ہیں، لیکن ان میں سے کس کو ترجیح دینی چاہیے؟ اس میں کچھ تفصیل ہے، وہ یہ کہ ان کاموں میں سے جس کی ضرورت زیادہ ہو اُس میں زیادہ ثواب ہو گا، اگر کسی جگہ فقراء زیادہ ضرورت مند یا نیک صالح یا سادات میں سے ہوں تو ان پر خرچ کرنا اور ان کا اکرام کرنا نفلی حج و عمرہ سے افضل ہوگا۔ اور اس علاقہ کے فقراء بہت زیادہ محتاج نہ ہوں، بلکہ اُن کی ضروریات کسی طرح پوری ہو رہی ہوں تو نفلی حج کرنا زیادہ بہتر ہو گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے فرمایا: آخری زمانہ میں لوگ بلاوجہ کثرت سے حج کریں گے، ان کے لئے سفر انتہائی آسان ہوگا اورمال و دولت کی فراوانی ہوگی، تو ان میں سے ایک شخص ریگستان اور بے آب و گیاہ زمین میں اپنا اونٹ دوڑائے گا اور حج کا سفر کرے گا حالانکہ اس کا پڑوسی بدحال ہوگا اور وہ اس کی غم خواری نہ کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ حج کے ارادے سے ریگستانوں اور بے آب و گیاہ...