اشاعتیں

دسمبر, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے حج اور عمرے فرمائے؟

 سوال: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کتنے حج اور کتنے عمرے کئے؟ الجواب و باللہ التوفیق:  حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد سے ہجرت تک تین حج کئے، فرضیت حج کا حکم نازل ہونے کے بعد آپ نے ایک حج فرمایا جس کو حجۃ الوداع ، حجۃ البلاغ اور حجۃ الاسلام کہتے ہیں - یہ وہ عظیم یادگار اور تاریخ ساز حج ہے جس میں صحابہ کرام کی ایک بہت بڑی تعداد نے آپ کے ہمراہ فریضہ حج ادا کیا، اور آپ سے حج وعمرہ کے احکام سیکھے۔  سیرت حلبیہ میں ہے : " ولم يحج منذ هاجر الي المدينة غير هذه الحجة,قال واما بعد النبوة قبل الهجرة فحج ثلاث حجات " اھ ( سیرت حلبیہ ج 3، ص 283 ) ۔  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کل چار عمرے کیے ہیں، البتہ ان میں سے عمرہ حدیبیہ کفار کی رکاوٹ کی وجہ سے مکمل نہیں ہوسکا تھا، باقی تین عمرے مکمل ادا فرمائے، اور یہ تمام کے تمام ذی قعدہ کے مہینے میں کیے، سوائے اس عمرہ کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے ساتھ کیا، وہ ذی الحجہ میں ہوا تھا. صحیح مسلم میں ہے : " أن رسول الله صلی الله علیه وسلم اعتمر أربع عمر کلهن فی ذی القعدة إلا التی مع ...

مقیم مقتدی کا مسافر امام کے ساتھ دو رکعت پر سلام پھیرنے کا حکم

  سوال: امام مسافر تھا، مقتدی سب مقیم تھے، جب امام نے عشاء میں دو رکعت پر سلام پھیرا، تو ان مقتدیوں نے بھی امام کے ساتھ سلام پھیردیا، ان کو معلوم نہیں تھا کہ امام مسافر ہے، سلام کے بعد امام کے اعلان سے ان کو یہ پتہ چلا کہ امام مسافر ہے، پھر مقتدیوں میں بعض کو تو معلوم تھا کہ ابھی دو رکعت ہی ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے بھی امام کے ساتھ سلام پھیردیا، اور بعض کا خیال تھا کہ نماز پوری ہوگئی، یہ سمجھ کر انہوں نے امام کے ساتھ سلام پھیرا، پھر امام کے اعلان کرنے کے بعد سب نے کھڑے ہوکر دو رکعت اور پڑھی اور اپنی نماز پوری کرلی، اب غور طلب یہ ہے کہ ان مقتدیوں کی نماز کا کیا حکم ہے؟ الجواب و باللہ التوفیق: جن مقتدیوں نے یہ سمجھ کر امام کے ساتھ سلام پھیرا کہ نماز مکمل ہوگئی، ان کی نماز صحیح ہوگئی، اور سلام پھیرنے کی وجہ سے سجدہ سہو بھی واجب نہیں ہوا، کیوں کہ لاحق کو اگر سہو ہوجائے، تو اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، اس لئے کہ وہ حکما امام کے پیچھے ہے۔ عالمگیری(1/ 238، ط:اتحاد) میں ہے:  "واللاحق لا یسجد لسہوہ فی ما یقضی، و المسبوق یسجد لسہوہ فی ما یقضی۔" "وحکمہ کمؤتم، فلا يأتي ...

بھائی کی سوتیلی لڑکی سے نکاح

 سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  کیافرماتےہیں حضرات علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کےبارےمیں......ایک شخص کاانتقال ہوگیا ...بعد عدت .. عورت نے نکاح کرلیا...اس عورت کی.مرحوم شوہر سے ایک لڑکی ہے ...معلوم یہ کرناہے...کہ ...لڑکی اپنی والدہ کےموجودہ شوہر کے بھائی سے نکاح کرسکتی ہے یانہیں؟ برائےکرم مدلل جواب عنایت فرمائیں   محمدمبارک قاسمی جامعہ اسلامیہ اشرف العلوم گوگوان الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں وہ لڑکی اپنے سوتیلے باپ کے بھائی سے نکاح کرسکتی ہے۔ فتاویٰ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن میں ہے: " اپنے بھائی کی ربیبہ سے نکاح جائز ہے۔ { وَأُحِلّ لَكُم مَّا وَرَاء ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا} [النساء:24]  ان عورتوں کو چھوڑ کر تمام عورتوں کے بارے میں یہ حلال کر دیا گیا ہے کہ تم اپنا مال (بطورِ مہر) خرچ کر کے انہیں (اپنے نکاح م...

کتنی عمر کے لڑکوں سے پردہ ضروری ہے؟

 سوال: عورت کےلیے کتنے سال کے لڑکے سے پردہ کرنا ضروری ہے؟ الجواب و باللہ التوفیق: جب لڑکا دس سال کا ہو جائے اور اس کے جسم کے ظاہری نشو ونما بالغ کی طرح معلوم ہوں تو دس سال سے ہی پردہ کیا جائے ، اگر ماحول، حالات اور جسمانی نشونما سے یہ اندازہ ہو کہ یہ ابھی حد شہوت کو نہیں پہنچا تو بارہ سال تک رخصت ہو گی ۔ اس کے بعد عورتوں کے لیے پردہ ضروری ہے ۔ پندرہ سال پورے ہونے کے بعد کسی طرح کی گنجائش باقی نہیں رہتی ،کیوں کہ پندرہ سال کے بعد بالاتفاق اس پر بالغ ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔ (احسن الفتاویٰ:8) فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے:   "آپ کا ۱۲ /سال سے اوپر والی عمر کے بچوں سے پردہ کرنا صحیح ہے اور آپ کے شیخ نے جو فرمایا کہ ۹/سال کی عمر کے بچوں سے عورت کو احتیاط کرنی چاہیے، یہ بھی صحیح ہے، احتیاط کا مطلب یہ ہے کہ پورا پردہ تو نہیں ہے، مگر احتیاط کی جائے کہ بے محابہ اور بے تکلف سامنے نہ آئے، اُس کے سامنے سر وغیرہ کھولنے میں احتیاط برتے۔  قال الحصکفي: وفي السراج: لا عورة للصغیر جداً، ثم مادام لم یشتہ، فقبل ودبر، ثم تغلظ الی عشر سنین۔۔۔۔۔قال ...

نماز مغرب میں دو رکعت چھوٹ گئی، اور مسبوق نے ایک رکعت پڑھ کر قعدہ نہیں کیا

مسئلہ : اگر کوئی شخص مغرب کی آخری رکعت میں امام کے ساتھ شامل ہوا، اور اس کی دو رکعت چھوٹ گئیں، تو اسے امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت پڑھنے کے بعد قعدہ کرنا چاہئیے، لیکن اگر اس نے امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت پڑھ کر بھول جانے کی وجہ سے یا عمدا قعدہ نہیں کیا، تو یہ قعدہ چھوڑنے کی وجہ سے استحسانا اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا، اور نماز درست ہو جائے گی۔ مفتی بہ قول یہی ہے۔ فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے:  *"صورت مسئولہ میں مسبوق نے اگر امام کے سلام کے بعد پہلی رکعت پر بھول کر یا جان بوجھ کر قعدہ نہیں کیا تو استحساناً سجدہ سہو لازم نہ ہوگا اور نماز درست ہوگی ؛ کیوں کہ امام کے سلام کے بعد اس نے سب سے پہلے جو رکعت ادا کی، وہ قعدہ کے حق میں اگرچہ دوسری رکعت ہے ؛ لیکن قراء ت کے حق میں پہلی رکعت ہے ، پس وہ من وجہ پہلی رکعت بھی ہے، مکمل طور پر وہ دوسری رکعت نہیں ہے اور پہلی رکعت پر قعدہ نہیں ہوتا (فتاوی رحیمیہ جدید،۵: ۱۱۳، ۱۱۴، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی)۔  قال في شرح المنیة: حتی لو أدرک مع الإمام رکعة من المغرب فإنہ یقرأ فی الرکعتین الفاتحة والسورة ویقعد في أولھما ؛ لأنھما ث...