کتنی عمر کے لڑکوں سے پردہ ضروری ہے؟

 سوال: عورت کےلیے کتنے سال کے لڑکے سے پردہ کرنا ضروری ہے؟

الجواب و باللہ التوفیق:


جب لڑکا دس سال کا ہو جائے اور اس کے جسم کے ظاہری نشو ونما بالغ کی طرح معلوم ہوں تو دس سال سے ہی پردہ کیا جائے ، اگر ماحول، حالات اور جسمانی نشونما سے یہ اندازہ ہو کہ یہ ابھی حد شہوت کو نہیں پہنچا تو بارہ سال تک رخصت ہو گی ۔ اس کے بعد عورتوں کے لیے پردہ ضروری ہے ۔ پندرہ سال پورے ہونے کے بعد کسی طرح کی گنجائش باقی نہیں رہتی ،کیوں کہ پندرہ سال کے بعد بالاتفاق اس پر بالغ ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔ (احسن الفتاویٰ:8)


فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے: 

 "آپ کا ۱۲ /سال سے اوپر والی عمر کے بچوں سے پردہ کرنا صحیح ہے اور آپ کے شیخ نے جو فرمایا کہ ۹/سال کی عمر کے بچوں سے عورت کو احتیاط کرنی چاہیے، یہ بھی صحیح ہے، احتیاط کا مطلب یہ ہے کہ پورا پردہ تو نہیں ہے، مگر احتیاط کی جائے کہ بے محابہ اور بے تکلف سامنے نہ آئے، اُس کے سامنے سر وغیرہ کھولنے میں احتیاط برتے۔ 

قال الحصکفي: وفي السراج: لا عورة للصغیر جداً، ثم مادام لم یشتہ، فقبل ودبر، ثم تغلظ الی عشر سنین۔۔۔۔۔قال ابن عابدین:( ثم تغلظ) قیل : المراد أنہ یعتبر الدبر وما حولہ من الالیتین، والقبل وما حولہ ، یعني: أنہ یعتبر في عورتہ ما غلظ من الکبیر۔ ( الدر المختار مع رد المحتار: ۱/۴۰۷، ۴۰۸، ط: دار الفکر )"


دار الافتاء جامعہ الرشید کراچی کے ایک فتویٰ میں ہے:

"اگر لڑکوں کے اندر بلوغت کی کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو مفتیٰ بہ قول کے مطابق 15 سال عمر ہونے پر وہ بالغ کہلائیں گے، لیکن پردے کا اصل مدار شہوت کی حد کو پہنچنے پر ہے، لہٰذا لڑکا جب اتنی عمر کا ہوجائے جس میں اس کو شہوت آتی ہو یا اس کو دیکھنے سے عورت کو شہوت پیدا ہوتی ہو تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہے ، اگرچہ اس کی عمر ابھی پندرہ سال نہ ہو۔ اسی لیے حدیث میں 10 سال کے بچوں کا بستر الگ کرنے کا حکم ہے۔ یہ عمر اس زمانے کے لحاظ سے تھی، اب مختلف اسباب کی بناء پر اس سے کم عمر بچوں میں بھی مخصوص معاملات کی سمجھ بوجھ پیدا ہوجاتی ہے۔

القرآن الکریم:

{وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ} [النور: 31]

أحکام القرآن للجصاصؒ (5/177):

قوله تعالی (أو الطفل الذین لم یظهروا علی عورات النساء) قال مجاهد: الذین لایدرون ما هن من الصغر، وقال قتادة: الذین لم یبلغوا الحلم منکم، قال أبوبکر: قول مجاهد أظهر؛ لأن معنی أنهم لم یظهروا علی عورات النساء أنهم لایمیزون بین عورات النساء والرجال لصغرهم وقلة معرفتهم بذلك، وقد أمر الله تعالی الطفل الذی قد عرف عورات النساء بالاستئذان فی الأوقات الثلاثة بقوله (لیستأذنکم الذین ملکت أیمانکم والذین لم یبلغوا الحلم منکم) وأراد به الذی عرف ذلك واطلع علی عورات النساء، والذی لایؤمر بالاستئذان أصغر من ذلك، وقد روی عن النبی صلی الله علیه وسلم أنه قال: "مروهم بالصلاة لسبع واضربوهم علیها لعشر وفرقوا بینهم فی المضاجع"، فلم یأمر بالتفرقة قبل العشر؛ لأنه قد عرف ذلك فی الأکثر الأعم ولا یعرفه قبل ذلك فی الأغلب.

معارف القرآن للمفتی محمد شفیع ؒ ( 6/405):

أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ اس سے مراد وہ نابالغ بچے ہیں جو ابھی بلوغ کے قریب بھی نہیں پہنچے اور عورتوں کے مخصوص حالات وصفات اور حرکات وسکنات سے بالکل بے خبر ہوں۔ اور جو لڑکا ان امور سے دلچسپی لیتا ہو وہ مراہق یعنی قریب البلوغ ہے، اس سے پردہ واجب ہے (ابن کثیر) امام جصاصؒ نے فرمایا کہ یہاں طفل سے مراد وہ بچے ہیں جو مخصوص معاملات کے لحاظ سے عورتوں اور مردوں میں کوئی امتیاز نہ کرتے ہوں ۔ (ذکرہ عن المجاھد).

الفتاوى الهندية، فصل فی النظر والمس (5/ 330):

والغلام الذي بلغ حد الشهوة كالبالغ كذا في الغياثية. 

(فتویٰ نمبر 60955)


واللہ اعلم

جاوید خلیل قاسمی

9/ جمادی الاولی 1442ھ


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حزب البحر مع طريق زکوۃ

زندہ مرغی تول کر بيچنے کا حکم

مفتی قاسم جلال آبادی