اشاعتیں

اگست, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

زندوں کو ثواب پہنچانا، اور فرائض و واجبات کا دوسروں کو ایصال ثواب کرنا کیسا ہے؟

  سوال : ایصال ثواب صرف مردوں کے لئے ہی ہوتا ہے، یا زندوں کے لیے بھی ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے ؟ نیز فرائض و واجبات کا ثواب دوسروں کو پہنچا سکتے ہیں یا نہیں ؟ الجواب و باللہ التوفیق: ثواب پہنچانے کے لیے مُردوں کی تخصیص نہیں ہے، لہذا قرآن مجید کی تلاوت یا کوئی دوسری عبادت کرکےاس کا ثواب زندوں اور مردوں دونوں کو پہنچانا جائز ہے۔ راجح ومفتی بہ قول کے مطابق نوافل کی طرح فرائض اور واجبات  کا بھی ایصال ثواب درست ہے، اور ایصال ثواب کی صورت میں فرض بھی ذمہ  سےساقط ہوجائے گا اور خود عمل کرنے والے کو بھی اس کا پورا ثواب ملے گا، اس کے ثواب کوئی کمی نہیں ہوگی۔  (باقیات فتاوی رشیدیہ، ص :۱۹۷ ) البحر الرائق میں ہے : ''فإن من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز، ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة، كذا في البدائع۔ وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيا''۔  (البحر الرائق، 3/63) فتاوی شامی میں ہے:  والظاہر أنہ لا فرق بین أن ینوی بہ عند الفعل للغیر أو یفعلہ لنفسہ ثم یجعل ثوابہ لغیرہ وأنہ لا فرق بین الفرض والنفل (شامي: ۳/۱۵۲، ط...

ایک لاکھ نمازوں کا ثواب صرف مسجد حرام کے لئے ہے یا پورے حرم کے لیے؟

   حرم مکی میں کہیں بھی نماز پڑھی جائے، ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملے گا۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ- رضي الله عنهما - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: ( صَلاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلاةٍ فِيمَا سِوَاهُ؛ إِلاَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَصَلاةٌ فِي ذَاكَ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ صَلاةٍ فِي هَذَا )۔  ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں ایک نماز دیگر مساجد میں ایک ھزار نمازوں سے افضل ہے، سوائے مسجد حرام کے، اور مسجد حرام میں ایک نماز اس یعنی مسجد نبوی میں سو نمازوں سے افضل ہے۔ (یعنی عام مساجد میں ایک لاکھ نمازوں کے برابر) رواه أحمد في (المسند)، (3/397)، (ح15306)؛ وابن ماجه، (1/451)، (ح1406)۔ و اسنادہ صحیح یہ فضیلت مسجد حرام کے ساتھ خاص ہے یا پورے حرم کے لیے ہے؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے، محدثین ، فقہاء اور علماء کی ایک بڑی جماعت کی رائے یہ ہے کہ یہ فضیلت پورے حرم کے لیے ہے، پورے حرم مکی میں کہیں بھی نماز پڑھیں،   ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملے گ...

کیا امام خود خطبہ کی اذان دے سکتا ہے ؟

  سوال : کیا امام خطبہ دینے سے پہلے، ممبر کے سامنے کھڑا ہوکر خود جمعہ کی اذان ثانی کہہ سکتا ہے ؟ الجواب و باللہ التوفیق : اس سلسلے میں کوئی صریح جزئیہ تو نہیں مل سکا، تاہم فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر مقتدی تکبیر کہنا نہ جانتا ہو، یا مقتدیوں میں کوئی با شرع شخص نہ ہو ، تو امام خود تکبیر کہہ سکتا ہے۔ کتاب النوازل میں ہے:  *بہتر ہے کہ تکبیر باشرع شخص ہی کہا کرے، اگر مقتدیوں میں ایسا کوئی شخص موجود نہ ہو تو امام خود بھی تکبیر کہہ سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں * . ( کتاب النوازل 3/ 327)  اس پر قیاس کرتے ہوئے اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے کہ اگر مقتدیوں میں کوئی اذان پڑھنے والا نہ ہو، تو اس صورت میں خود امام خطبہ کی اذان پڑھ سکتا ہے۔ وفي الهندیة (۵۷/۱): "وإن كان المؤذن والإمام واحد فإن أقام في المسجد، فالقوم لایقومون مالم یفرغ من الإقامة". "عن عقبة بن عامر الجهني قال: کنت مع النبي صلی الله علیه وسلم في سفر، فلما طلع الفجر أذن وأقام، ثم أقامني عن یمینه".  (المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الصلاة، باب من کان یخفف القراءة في السفر، مؤسسة علوم القرآن ۳/ ۲۵۴، رقم: ۳۷۰۸)  واللہ اعلم...

آیت سجدہ پہلے خود پڑھی، پھر اسی مجلس میں دوسرے سے سنی، تو کتنے سجدے واجب ہوں گے؟

  سوال :  اگر کوئی شخص ایک ہی مجلس میں کسی آیت سجدہ کو کئی لوگوں سے سنے ۔ یا پہلے کسی دوسرے سے آیت سجدہ سنے، اور پھر وہی آیت اسی مجلس میں خود تلاوت کرے، تو اس صورت میں اس پر ایک سجدہ واجب ہوگا یا دو سجدے؟؟ الجواب و باللہ التوفیق : اگر ایک ہی مجلس میں سجدے کی ایک آیت کو بار بار پڑھا، یا سنا، تو ایک ہی سجدہ واجِب ہو گا، اگرچِہ چند لوگوں سے سنا ہو۔  اسی طرح  اگر آیت سجدہ پڑھی اور پھر اسی مجلس میں وُہی آیت دوسرے سے سنی ، یا کسی سے آیت سجدہ سنی، اور پھر اسی مجلس میں وہی آیت خود پڑھی، تو اس صورت میں بھی ایک ہی سجدہ واجِب ہو گا۔ فتاوی شامی میں ہے: "متی اتحد الآية و المجلس، لا یتکرر الوجوب، و ان اجتمع التلاوة و السماع و لو من جماعة ۔ ففی البدائع:  لا یتکرر  و لو اجتمع سببا الوجوب، و ھما التلاوة و السماع بان تلاھا ثم سمعھا ، او بالعکس، او تکرر احدھما ۔ و فی البزازیة : سمعھا من آخر و من آخر ایضاً، و قرأها ، كفته سجدة واحدة في الاصح؛ لاتحاد الاية و المكان . و نحوه في الخانية . " ( رد المحتار ٢/ ٧١٣، تهانوي، باب سجود التلاوة) واللہ اعلم حررہ جاوید خلیل قاسمی بالوی ...

’’حب الوطن من الايمان‘‘ کی تحقیق

 ’’ حب الوطن من الٳیمان ‘‘ کو عوام ، بلکہ بہت سے علماء بھی بالخصوص خطباء حدیث رسول سمجھتے ہیں ، اور اپنے خطبات اور مجالس میں حدیث رسول کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ جب کہ حضرات محدثین کی تصریحات کے مطابق اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، یہ ایک من گھڑت اور موضوع حدیث ہے۔ اسے حدیث رسول کے طور پر بیان کرنا درست نہیں۔ البتہ محدثین میں سے علامہ سخاوی یہ صراحت کرنے کے بعد کہ مجھے ذخیرہ احادیث میں یہ روایت نہیں ملی، فرماتے ہیں کہ اس کے معنی صحیح ہیں۔ جب کہ دیگر محدثین نے علامہ سخاوی کے اس قول کو قبول نہیں کیا۔ ملا علی قاری اور دیگر محدثین سخاوی کے مذکورہ قول کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وطن کی محبت اور ایمان کے مابین کوئی تلازم نہیں ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی ’’ الدرر المنتثرۃ فی الٲحادیث المشتھرۃ ‘‘ میں فرماتے ہیں : "حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِيمَانِ" لم أقف عليه. ( ۱/ ۱۰۰، رقم ۱۹۰) علامہ سخاوی ’’ المقاصد الحسنۃ ‘‘ میں فرماتے ہیں : حَدِيث: حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِيمَانِ، لم أقف عليه، ومعناه صحيح ۔ في ثالث المجالسة للدينوري من طريق الأصمعي، سمعت أعرابيا يقول: إذا أردت أن تعرف الرجل فانظر كيف ...