ایک لاکھ نمازوں کا ثواب صرف مسجد حرام کے لئے ہے یا پورے حرم کے لیے؟

  حرم مکی میں کہیں بھی نماز پڑھی جائے، ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملے گا۔


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ- رضي الله عنهما - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: (صَلاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلاةٍ فِيمَا سِوَاهُ؛ إِلاَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَصَلاةٌ فِي ذَاكَ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ صَلاةٍ فِي هَذَا)۔ 

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں ایک نماز دیگر مساجد میں ایک ھزار نمازوں سے افضل ہے، سوائے مسجد حرام کے، اور مسجد حرام میں ایک نماز اس یعنی مسجد نبوی میں سو نمازوں سے افضل ہے۔ (یعنی عام مساجد میں ایک لاکھ نمازوں کے برابر)

رواه أحمد في (المسند)، (3/397)، (ح15306)؛ وابن ماجه، (1/451)، (ح1406)۔ و اسنادہ صحیح

یہ فضیلت مسجد حرام کے ساتھ خاص ہے یا پورے حرم کے لیے ہے؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے، محدثین ، فقہاء اور علماء کی ایک بڑی جماعت کی رائے یہ ہے کہ یہ فضیلت پورے حرم کے لیے ہے، پورے حرم مکی میں کہیں بھی نماز پڑھیں،  ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملے گا۔ البتہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے پر اجر و ثواب میں اضافہ ہو جاتا ہے اور جتنی بڑی جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جائے گی اتنا ہی ثواب میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ (کذا فی فتاوی جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی)

روایات اور حضرات صحابہ کے عمل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ فضیلت پورے حرم کے لیے ہے۔

مسند احمد میں ہے:

  نبی ﷺحدیبیہ میں حل (حدود حرم سے باہر) کے مقام پر رہائش پذیر تھے لیکن جب نماز پڑھناہوتا تو آپ حدود حرم میں آجاتے ۔(مسند احمد: 4/326، ابن ابی شیبہ ص: 274،275)

در اصل حدیبیہ کا کچھ حصہ حل ہے اور کچھ حصہ حرم ۔ اس حدیث سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ حرم کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے حل سے حرم میں آجاتے اور پھر نماز ادا کرتے تھے ۔ 

ابن القیم ؒ نے مسند احمد کی اس روایت کے متعلق لکھا ہے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مکہ میں نماز کی زیادتی کا ثواب پورے حرم کو شامل ہے یہ اس مسجد کے ساتھ خاص نہیں ہے جو طواف کی جگہ ہے ۔ (زادالمعاد:3/303)

کئی صحابہ کرام بھی نبی ﷺ کی طرح حرم کے حدود میں نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے جیساکہ عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کی رہائش عرفہ میں حل میں ہوتی اور آپ کا مصلی حرم کے حدود میں ہوتا ، پوچھاکہ اس کی وجہ کیا ہے تو انہوں نے کہا اس میں عمل کرنا افضل ہے اور گناہ بھی عظیم ہے۔ (مصنف عبدالرزاق، كتاب الحج، باب الخطيئة في الحرم:5/ 27: 8870)

حجة الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 9 ذی الحجہ سے پہلے چار دن "ابطح" میں قیام فرمایا، اور وہیں نمازیں ادا فرماتے رہے، نماز پڑھنے کے لئے مسجد حرام میں آنے کا اہتمام نہیں فرمایا۔

شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلوی " حجة الوداع و عمرات النبی" میں تحریر فرماتے ہیں:

"پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم (حجة الوداع کے موقع پر)  ظاہر مکہ یعنی ابطح میں جو مکہ سے مشرقی جانب ہے چار دن ٹہرے درآں حالیکہ آپ اسی جگہ قصر کی نماز پڑھتے تھے" (ص89)

حالانکہ آپ نے خود یہ فرمایا ہے کہ مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے، اور آپ کی عبادت اور زیادہ سے ثواب حاصل کرنے کی حرص کسی پر مخفی نہیں، لیکن اس کے باوجود آپ نے مسجد حرام میں آکر نماز پڑھنے کا اہتمام نہیں کیا۔ یہ اس کی قوی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا جو ثواب بیان فرمایا ہے، وہ مسجد حرام کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ پورے حرم مکی کے لیے ہے، کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ حجة الوداع کے موقع پر مسجد حرام کے قریب قیام فرماتے ، اور  قیام مکہ کے زمانے میں تمام نمازیں مسجد حرام میں ادا فرماتے۔

فتاوی شامی میں ہے :

و ذکر البیری فی شرح الاشباہ فی احکام المسجد ان المشہور عند اصحابنا ان التضعیف یعم جمیع مکة ، بل جمیع حرم مکة الذی یحرم صیدہ کما صححہ النووی ۔  (رد المحتار 3/ 625، ط : تھانوی دیوبند)


حرم مکی کی حدود :

 بناءِ  کعبہ کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جبرئیل علیہ السلام کی نشان دہی پر بیت اللہ  کی چاروں اطراف حدودِ حرم کی تحدید فرمائی تھی،  پھر فتحِ  مکہ کے روز خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے  تمیم بن اسد  کو حدودِ حرم کی علامات کی تجدید کا حکم فرمایا تھا، جس کی بجا آوری میں انہوں نے تجدید فرمائی، پھر حضرت عمر پھر حضرت عثمان پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنے اپنے ادوار میں مقرر کردہ حدود کی علامات کی تجدید فرمائی، یہ حد بندی توقیفی ہے، پس مدینہ منورہ کی جانب سے ’’تنعیم‘‘ (مسجدِ عائشہ) تقریباً تین میل (بعض نے پانچ میل تک مقدار بتائی ہے)،  یمن کی جانب سے ’’اضاۃلبن‘‘  کے مقام تک، تقریباً سات میل، جدہ کی جانب سے ’’مقامِ حدیبیہ‘‘  کے آخری حصے تک تقریباً دس میل،  جعرانہ  کی جانب سے نو میل،   طائف کی جانب سے عرفات کے مقام بطن عرنہ/ نمرہ تک تقریباً سات میل، عراق کی جانب سے جبل مقطع تک تقریباً سات میل۔

مذکورہ بالا تمام مقامات کا اندورنی علاقہ حرم  کہلاتا ہے، جہاں کی ہری گھاس، پودے یا درخت کاٹنا حرام ہے، اور اس اندرونی حصہ میں  شکار  کرنا یا پالتو جانوروں کے علاوہ جانور مارنا بھی (جب تک وہ حملہ نہ کرے) حرام ہے۔

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَسْوَدِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ إِبْرَاهِيمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ أَوَّلُ مَنْ نَصَبَ أَنْصَابَ الْحَرَمِ، وَأَشَارَ لَهُ جِبْرِيلُ إِلَى مَوَاضِعِهَا.

قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: وَأَخْبَرَنِي عَنْهُ أَيْضًا: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ يَوْمَ الْفَتْحِ تَمِيمَ بْنَ أَسَدٍ جَدَّ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ تَمِيمٍ فَجَدَّدَهَا» ( بَابُ فَضْلِ الْحَرَمِ، وَأَوَّلُ مَنْ نَصَبَ أَنْصَابَ الْحَرَمِ، 5 / 25، رقم: 8864، المجلس العلمي الهند)

شرح المہذب للنووی میں ہے:

" ذكر الأزرقي وغيره بأسانيدهم أن إبراهيم الخليل عليه السلام علمها, ونصب العلامات فيها ، وكان جبريل عليه السلام يريه مواضعها، ثم أُمر نبينا صلى الله عليه وسلم بتجديدها، ثم عمر، ثم عثمان، ثم معاوية رضي الله عنهم، وهي إلى الآن بينة ولله الحمد، قال الأزرقي في آخر كتاب مكة : أنصاب الحرم التي على رأس الثنية ما كان من وجوهها في هذا الشق فهو حرم، وما كان في ظهرها فهو حل قال: وبعض الأعشاش في الحل وبعضه في الحرم". (شرح المهذب، 7 / 463)

الموسوعة الفقهية الكويتية  میں ہے:

"تَحْدِيدُ حَرَمِ مَكَّةَ: حَدُّ الْحَرَمِ مِنْ جِهَةِ الْمَدِينَةِ الْمُنَوَّرَةِ عِنْدَ التَّنْعِيمِ وَهُوَ عَلَى ثَلاَثَةِ أَمْيَالٍ. وَفِي كُتُبِ الْمَالِكِيَّةِ أَنَّهُ أَرْبَعَةُ أَوْ خَمْسَةُ أَمْيَالٍ. وَمَبْدَأُ التَّنْعِيمِ مِنْ جِهَةِ مَكَّةَ عِنْدَ بُيُوتِ السُّقْيَا، وَيُقَال لَهَا بُيُوتُ نِفَارٍ، وَيُعْرَفُ الآْنَ بِمَسْجِدِ عَائِشَةَ، فَمَا بَيْنَ الْكَعْبَةِ الْمُشَرَّفَةِ وَالتَّنْعِيمِ حَرَمٌ. وَالتَّنْعِيمُ مِنَ الْحِل. وَمِنْ جِهَةِ الْيَمَنِ سَبْعَةُ أَمْيَالٍ عِنْدَ أَضَاةِ لِبْنٍ (بِكَسْرٍ فَسُكُونٍ كَمَا فِي الْقَامُوسِ وَشِفَاءِ الْغَرَامِ) وَمِنْ جِهَةِ جُدَّةَ عَشَرَةُ أَمْيَالٍ عِنْدَ مُنْقَطَعِ الأَْعْشَاشِ لآِخِرِ الْحُدَيْبِيَةِ، فَهِيَ مِنَ الْحَرَمِ. وَمِنْ جِهَةِ الْجِعْرَانَةِ تِسْعَةُ أَمْيَالٍ فِي شِعْبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدٍ. وَمِنْ جِهَةِ الْعِرَاقِ سَبْعَةُ أَمْيَالٍ عَلَى ثَنِيَّةٍ بِطَرَفِ جَبَل الْمُقَطَّعِ، وَذُكِرَ فِي كُتُبِ الْمَالِكِيَّةِ أَنَّهُ ثَمَانِيَةُ أَمْيَالٍ. وَمِنْ جِهَةِ الطَّائِفِ عَلَى عَرَفَاتٍ مِنْ بَطْنِ نَمِرَةَ سَبْعَةُ أَمْيَالٍ عِنْدَ طَرَفِ عُرَنَةَ.

وَلَعَل الاِخْتِلاَفَ فِي تَحْدِيدِ الأَْمْيَال يَرْجِعُ إِِلَى الاِخْتِلاَفِ فِي تَحْدِيدِ أَذْرُعِ الْمِيل وَأَنْوَاعِهَا. (1) وَابْتِدَاءُ الأَْمْيَال مِنَ الْحَجَرِ الأَْسْوَدِ. هَذَا وَقَدْ حُدِّدَ الْحَرَمُ الْمَكِّيُّ الآْنَ مِنْ مُخْتَلَفِ الْجِهَاتِ بِأَعْلاَمٍ بَيِّنَةٍ مُبَيِّنَةٍ عَلَى أَطْرَافِهِ مِثْل الْمَنَارِ مَكْتُوبٍ عَلَيْهَا اسْمُ الْعَلَمِ بِاللُّغَاتِ الْعَرَبِيَّةِ وَالأَْعْجَمِيَّةِ". (2) البدائع 2 / 164، وحاشية ابن عابدين 2 / 155، 156، ومواهب الجليل 3 / 171، وجواهر الإكليل 1 / 194، ونهاية المحتاج 3 / 345، ومغني المحتاج 1 / 528، وإعلام الساجد 63 - 65، وكشاف القناع 2 / 473، ومطالب أولي النهى 2 / 382، وشفاء الغرام 1 / 54 وما بعدها.) ( 17 / 185 - 186)

(کذا فی فتاویٰ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی)


واللہ اعلم


جاوید خلیل قاسمی بالوی

مجموعہ علم وتحقیق

٣/ محرم ١٤٤٢ھ

https://chat.whatsapp.com/JUMSrpy373cLMi0a3EwXzb


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حزب البحر مع طريق زکوۃ

زندہ مرغی تول کر بيچنے کا حکم

مفتی قاسم جلال آبادی