اشاعتیں

مفتی قاسم جلال آبادی

 حضرت مولانا مفتی محمد قاسم صاحب جلال آبادی: کچھ یادیں کچھ باتیں ✒️ جاوید خلیل قاسمی بالوی 29 جمادی الاخری 1444ھ بہ روز اتوار کو صبح ساڑھے نو بجے درس سے فارغ ہو کر حسب معمول واٹس ایپ کھولا، تو یہ دل دوز خبر واٹس ایپ پر گردش کرتی ہوئی نظر آئی کہ "استاذ الاساتذہ حضرت مولانا مفتی محمد قاسم صاحب جلال آبادی اب اس دنیا میں نہیں رہے"۔ دو دن پہلے ہی کی تو بات ہے، دیوبند سے واپس ہوتے ہوئے جمعہ کے روز ہم جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد میں کچھ دیر کے لیے رکے، جامعہ کی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی، کچھ طلبہ سے ملاقات ہوئی، حضرت مولانا مفتی عبد الستار صاحب کے صاحب زادے (جو میرے شاگرد بھی ہیں) مولوی طلحہ سلمہ بھی کئی سالوں کے بعد ملے، ان سے بہت سی باتیں ہوئیں، پھر استاذ محترم حضرت مولانا شبیر احمد صاحب پتھر گڑھی استاذ جامعہ مفتاح العلوم کے مکان پر حاضر ہو کر دوپہر کا کھانا کھایا، کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ مفتی قاسم صاحب علیل ہیں، بتاتے بھی کیسے ؟ مفتی صاحب ٹھیک تھے، کوئی ایسی بیماری تھی ہی نہیں جسے سفر آخرت کا مقدمہ تصور کیا جاتا، یہ کسے معلوم تھا کہ اتوار کی صبح اچانک حضرت مفتی صاحب پر ہارٹ...

تعزیت

تصویر
 تعزیت بموقع وفات والدہ قاری مسعود احمد صاحب استاذ مظاہر علوم سہارنپور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب قاری مسعود احمد صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ  آپ کی والدہ کی علالت کی خبریں کئی دن سے متواتر مل رہی تھیں، اور اسی وقت سے ان کے لیے دعائے صحت بھی جاری تھی، لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی کے سامنے کسی کی نہیں چلتی، جب وقت پورا ہو جاتا ہے، ساری دنیا مل کر بھی کسی کو موت کے منہ میں جانے سے نہیں بچا سکتی۔ والدہ انسان کے لیے ایسی نعمت ہوتی ہے کہ دنیا کی کوئی چیز اس کا نعم البدل تو کیا ادنی بدل بھی نہیں بن سکتی، ماں کی ممتا وہ چیز ہے جس کو ساری دنیا دے کر بھی کہیں سے خریدا نہیں جاسکتا۔ ماں ہی وہ واحد شخصیت ہے جس کے قدموں کے نیچے جنت رکھی گئی ہے۔ ماں جب منہ موڑ لیتی ہے تو دنیا اپنی تمام تر رعنائیوں اور رنگینیوں کے باوجود اجاڑ سی محسوس ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے چلتی پھرتی ہنستی مسکراتی زندگی تھم سی گئی ہو، آپ والدہ کے چلے جانے سے رنج و الم کی جس کیفیت سے دو چار ہوئے ہیں میں اسے بخوبی سمجھ سکتا ہوں، کیوں کہ میں بھی اس مرحلے سے گزر چکا ہوں...

بادشاہی باغ کا سفر

 بادشاہی باغ کا سفر از قلم: جاوید خلیل قاسمی بالوی حضرت مولانا مفتی عبد الغنی صاحب ازھری دامت برکاتہم کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں ہے، آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے علمی وعملی کمالات سے نوازا ہے، ہماری سال گزشتہ حضرت سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی تھی، جس میں بہت سی علمی باتیں ہوئیں ، میں نے اجازت حدیث کے لیے درخواست کی، تو ہنس کر فرمانے لگے کہ یہ تو پہلی ملاقات ہے، جب دوبارا آؤگے تو اجازت دوں گا ۔ اسی وقت ارادہ کیا تھا کہ دوبارا جلد حاضر خدمت ہوکر روایتِ حدیث کی اجازت لوں گا ، لیکن پھر حضرت کشمیر تشریف لے گئے ، کئی ماہ وہاں قیام کرکے واپس تشریف لائے ، تو خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا ، لیکن مختلف موانع کی وجہ سے حاضری نہ ہوسکی ، پچھلے ہفتے جمعرات کو حضرت کے چھوٹے صاحب زادے قاری علی صابر سلمہ کو فون کرکے حاضر خدمت ہونے کی اطلاع دی، اور جمعرات ہی کو نماز ظہر سے قبل گڑھی دولت سے سفر شروع ہوا، مدرسہ احسن العلوم کیرانہ میں نمازِ ظہر ادا کی، پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق وہاں سے مولوی ارشد قاسمی اور قاری اویسی بدری رفقاء سفر میں شامل ہوئے ، قاری محمد عالم انبہٹوی اور مولوی حسین انبہٹوی پہل...

مسابقہ خطابت میں

 *مسابقہ خطابت میں*  ✒️ جاوید خلیل قاسمی بالوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمعہ کا دن تھا، عصر بعد کا وقت جب ہم مولانا واصل صاحب فاضل جامعہ حسینیہ اجراڑہ کی رفاقت میں جامعہ احمد العلوم خانپور کے دار جدید میں داخل ہوئے، جامعہ احمد العلوم میں اس سے پہلے بھی کئی بار حاضری ہوچکی ہے، لیکن اس بار کی حاضری تھوڑی الگ نوعیت کی تھی، حضرت مولانا مفتی محمد عمران صاحب مہتمم جامعہ ھذا اور مفتی محمد صابر صاحب ناظم جامعہ ھذا داعی تھے اور ہم مدعو، دعوت کا عنوان تھا مسابقہ خطابت میں حکمیت، گاڑی سے اترے، دونوں حضرات سے مصافحہ، علیک سلیک اور مزاج پرسی کا عمل ابھی جاری ہی تھا کہ ناشتہ کے لیے بلاوا آگیا، دسترخوان پر انواع و اقسام کے پھل، ڈرائی فروٹ اور گرم چائے موجود تھی، ناشتے سے فراغت کے ساتھ ہی مغرب کی اذان شروع ہوگئی، مسجد میں پہنچ کر نماز مغرب ادا کی ، امام صاحب کا نام تو معلوم نہیں کرسکے، تاہم جو بھی تھے، اچھا قرآن شریف پڑھا، ادائیگی بھی عمدہ تھی، لہجہ بھی کانوں میں رس گھول رہا تھا، پڑھنے کی رفتار بھی معتدل تھی، نماز میں خوب طبیعت لگی۔ نماز م...

حضرت مولانا افضال صاحب گنگوہی : نقوش و تاثرات

✒️ محمد جاوید قاسمی بالوی خادم جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت  دو تین روز پہلے واٹس ایپ پر اچانک یہ اطلاع ملی کہ حضرت الاستاذ مولانا افضال صاحب گنگوہی کی طبیعت زیادہ خراب ہے ، گردوں نے کام کرنا بند کردیا ہے، اسی وقت سے ہمارے یہاں جامعہ میں نمازوں کے بعد مولانا کے لیے دعائے صحت کا اہتمام شروع کر دیا گیا ، کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ مولانا کی یہ علالت اتنی مختصر اور مرض الوفات ثابت ہوگی۔ کل صبح بھی نماز فجر کے بعد امام صاحب نے مولانا کی صحت وشفاء کے لیے رقت آمیز دعا کرائی، اس وقت تک کسی کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اب مولانا مرحوم دعائے صحت سے بے نیاز ہو کر اپنے رب حقیقی کے جوار رحمت میں پہنچ چکے ہیں ۔  نمازِ فجر کے بعد جب واٹس ایپ کھولا تو اکثر گروپس میں مولانا کی وفات کی خبر گردش کرتی دیکھ کر دل پر رنج و الم کے بادل چھاگئے ، اور مولانا کی ناگہانی موت نے ایک بار پھر یہ حقیقت تازہ کردی کہ موت کے لیے کوئی عمر متعین نہیں، جیسے ہی آدمی کا وقت پورا ہوجاتا ہے کیا بوڑھا کیا جوان، کیا بچہ کیا ادھیڑ عمر، کیا مرد کیا عورت سب موت کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ کسی کو ہو یا نہ ہو کم...

گھر میں تراویح پڑھنے والے فرض نماز مسجد میں پڑھیں

  سوال:  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔  حضرت ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے ۔ جس گھر میں تراویح کی نماز ادا کی جارہی ہو اسی گھر میں عشاء کی جماعت کرنا کیسا ہے۔ جب کہ مسجد بھی قریب میں ہو ۔کیا گھر میں جماعت سے نماز میں کراہت تحریمی اور ترک جماعت مسجد کا گناہ لازم نہیں آئے گا ،؟  الجواب و باللہ التوفیق: حسب تحریر سوال جب مسجد قریب ہے، تو عشاء کی فرض نماز کو گھر میں پڑھنے کا اہتمام صحیح نہیں، یہ عمل سخت مکروہ ہے، ایسا کرنے والے گناہ گار ہوں گے۔ فرض نماز مسجد میں جماعت سے پڑھنے کے بعد، سنتیں اور تراویح گھر میں آکر پڑھ سکتے ہیں۔   عن علی رضی اللہ عنہ قال: لا صلاة لجار المسجد الا في المسجد. ( مصنف ابنِ ابی شیبہ 3/ 195) و اخرجہ الدار قطنی (رقم 1552) بسندہ مرفوعاً عن جابر بن عبداللہ و ابی ھریرة ، والحاکم فی المستدرک ( رقم898) اتیان المسجد ایضاً واجب کوجوب الجماعۃ، فمن صلاھا بجماعة في بيته اتى بواجب و ترك واجبا آخر .... فالصحیح ان الجماعۃ واجبة مع اتيانها في المسجد، و من اقامها في البيت وهو يسمع النداء فقد اساء و اثم. (اعلاء السنن 4/164) نیز دیکھیں: کتاب النوازل ( 5/ 87) وال...

قوم وملت کا سچا محافظ حضرت مولانا زاهد حسن صاحب ابراهيمي

قوم وملت کا سچا محافظ مفکر ملت حضرت مولانا زاہد حسن صاحب نور اللہ مرقدہ   از قلم : جاوید خلیل قاسمی بالوی  استاذ  حدیث و مفتی جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت حضرت مولانا زاہد حسن صاحب نور اللہ مرقدہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ، مجھے آپ کی زیارت و ملاقات کا شرف تو حاصل نہ ہوسکا ؛ کیوں کہ حضرت کے انتقال کے وقت میری عمرصرف سات سال تھی۔ یہ تو یاد نہیں کہ سب سے پہلے آپ کا اسم گرامی کب سنا، البتہ اتنا یاد ہے کہ جب سے ہوش سنبھالااورعلم و کتاب سے کچھ مناسبت ہوئی، حضرت کا اسم گرامی ، علمی کارنامے اور قومی و ملی خدمات کے بارے میں برابر سنتا رہا۔ آپ کو اللہ تعالی نے اعلی اخلاق ، بلند کردار ، تقوی و طہارت ، صدق و امانت ، اخلاص و للہیت اور علمی و عملی قابلیت جیسی بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ آپ متبحر عالم، مادر زاد ولی، بے مثال سیاسی قائد،  قوم و ملت کے سچے محافظ اور بے لوث خادم دین تھے، ایسے لوگ مدتوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ نام ونسب:   حضرت مولانا زاہد حسن صاحب ،بن چودھری محمد اسماعیل، بن قلندر بخش ،بن محمد علی، بن کریم الدین۔ پیدائش:   جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے اس وقت کسی ک...