مسابقہ خطابت میں
*مسابقہ خطابت میں*
✒️ جاوید خلیل قاسمی بالوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعہ کا دن تھا، عصر بعد کا وقت جب ہم مولانا واصل صاحب فاضل جامعہ حسینیہ اجراڑہ کی رفاقت میں جامعہ احمد العلوم خانپور کے دار جدید میں داخل ہوئے، جامعہ احمد العلوم میں اس سے پہلے بھی کئی بار حاضری ہوچکی ہے، لیکن اس بار کی حاضری تھوڑی الگ نوعیت کی تھی، حضرت مولانا مفتی محمد عمران صاحب مہتمم جامعہ ھذا اور مفتی محمد صابر صاحب ناظم جامعہ ھذا داعی تھے اور ہم مدعو، دعوت کا عنوان تھا مسابقہ خطابت میں حکمیت، گاڑی سے اترے، دونوں حضرات سے مصافحہ، علیک سلیک اور مزاج پرسی کا عمل ابھی جاری ہی تھا کہ ناشتہ کے لیے بلاوا آگیا، دسترخوان پر انواع و اقسام کے پھل، ڈرائی فروٹ اور گرم چائے موجود تھی، ناشتے سے فراغت کے ساتھ ہی مغرب کی اذان شروع ہوگئی، مسجد میں پہنچ کر نماز مغرب ادا کی ، امام صاحب کا نام تو معلوم نہیں کرسکے، تاہم جو بھی تھے، اچھا قرآن شریف پڑھا، ادائیگی بھی عمدہ تھی، لہجہ بھی کانوں میں رس گھول رہا تھا، پڑھنے کی رفتار بھی معتدل تھی، نماز میں خوب طبیعت لگی۔ نماز مغرب کے بعد مولانا محمد عثمان صاحب گنگوہی اپنے کمرے میں لے آئے، کچھ دیر ان سے گفتگو رہی۔
مسابقہ کی خوب صورت محفل مسجد میں سجائی گئی تھی، اسٹیج پر حضرات اساتذہ وذمہ داران رونق افروز تھے، سامنے مکمل سلیقے اور حسن ترتیب کے ساتھ طلبہ فروکش تھے، درمیان میں مقرر کے لیے ڈائز، سامنے دائیں بائیں حکمین کی نشست، اور ایک سائڈ میں اناؤنسر اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف۔ ایک خوش الحان قاری کی تلاوت سے محفل مسابقہ کا آغاز ہوا، بعد ازاں ایک طالب علم نے نعتیہ اشعار گنگنائے، پھر مسابقہ میں شریک طلبہ کی تقاریر کا دور شروع ہوا۔ مختلف جماعتوں کے کل 32 طلبہ مسابقہ کا حصہ تھے، جن میں فارسی و عربی اول کے طلبہ بھی تھے اور ہفتم عربی اور دورہ حدیث کے خوشہ چیں بھی، زیادہ تعداد ابتدائی عربی درجات کے طلبہ کی تھی، در اصل یہاں ایک مسابقہ خطابت دو ہفتے قبل ہوچکا تھا جس میں 40 چنیدہ طلبہ نے شرکت کی تھی، یہ مسابقہء خطابت کی دوسری کڑی تھی جس میں وہ طلبہ حصہ لے رہے تھے جو بقول انتظامیہ سستی کاہلی اور اپنی کم زوری کی بناء پر پہلے مسابقہ میں شریک نہ ہوسکے تھے، جامعہ کی انتظامیہ بالخصوص مولانا مفتی محمد صابر صاحب مبارکبادی کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ان کمزور اور سست طلبہ کے اندر شوق ولگن کی وہ روح پھونک دی کہ صرف پندرہ یوم کی مختصر تیاری کے بعد وہ مسابقہ میں شریک ہوکر خطابت کے بہترین جوہر دکھا رہے تھے۔ ہر مساہم کو ناظم مسابقہ کی طرف سے 6 منٹ دی گئی تھیں، 4منٹ پر پہلی گھنٹی یہ پیغام دینے کے لیے رکھی گئی تھی کہ اب خطیب کے پاس صرف 2 منٹ کا وقت بچا ہے، اسی میں اسے اپنی گفتگو کو سمیٹ کر ختم کرنا ہے، طلبہ کے تقریر پیش کرنے کا انداز لائق تحسین تھا، جرات بلا کی تھی، یاد داشت بہتر تھی، مواد کی فراوانی تھی۔ ایسے موقع پر حکم کے لیے بڑی مشکل پیش آتی ہے، وہ یہ طے نہیں کرپاتا کہ کس کو نمبر کم دئیے جائیں کس کو زیادہ، ماشاءاللہ اکثر مساہمین نے اعلیٰ نمبرات حاصل کئے۔
درمیان میں نماز عشاء ادا کی گئی، یہ حسن انتظام دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ ادھر مسابقہ بھی جاری رہا، ادھر نہایت عمدہ ترتیب کے ساتھ اساتذہ کی نگرانی میں ایک ایک دو دو طلبہ اٹھ کر وضو سے بھی فارغ ہوتے رہے، پہلی نشست کا اختتام ہونے تک تمام طلبہ واساتذہ وضو سے فارغ ہوچکے تھے، چنانچہ اذان کے متصلاً بعد نمازِ عشاء ادا کرلی گئی، وقت بھی دس بجے چکے تھے، سنتوں اور وتر سے فارغ ہونے کے بعد دوسری نشست شروع ہوگئی، اس کا آغاز ایک عمر رسیدہ بزرگ مہمان کی فرمائش وخواہش پر ان کی خوب صورت نعت سے ہوا، بڑے میاں کی آواز بھی اچھی تھی اور لہجہ بھی عمدہ تھا، قاری محمد اسرار صاحب ہیبت پوری استاذ جامعہ ھذا نے بھی شان دار نعت پڑھی، دوسری نشست میں اولا مولانا محمد واصل صاحب نے اپنے قیمتی تاثرات پیش کئے، ثانیاً مجھے اپنے تاثرات پیش کرنے کا حکم ہوا، میں نے جامعہ کے ذمہ داران، اساتذہ اور مسابقہ میں حصہ لینے والے طلبہ کو ان کی عمدہ کارکردگی پر مبارکباد پیش کی، اور ان کے انداز بیان اور زور خطابت کو سراہا، بعد ازاں مندرجہ ذیل چند باتیں عرض کیں:
(1) تقریر وخطابت کی مشق کے لئے جو کتابیں دستیاب ہیں ان میں سے بیش تر، مؤلفین نے زمانہ طالب علمی میں لکھی ہیں۔ ان میں معتبر علمی مواد کو جمع کرنے کے بجائے لفاظی پر زیادہ توجہ دی گئی ہے، جس کی وجہ سے ان میں بہت سی غیر معتبر اور غلط معلومات در آئی ہیں، اس لئے تقریر یاد کرنے کے لیے ایسی کتاب کا انتخاب کرنا ضروری ہے جو کسی با صلاحیت محقق عالم اور اچھے خطیب کی لکھی ہوئی ہو۔ تاکہ غلط اور نا پختہ معلومات طلبہ کے ذہن کا حصہ نہ بن سکیں۔
(2) صحیح کتاب کے انتخاب کے بعد خود کسی تقریر کا انتخاب کرنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ اپنے کسی با ذوق استاذ محترم سے اس سلسلے میں رہ نمائی لی جائے ۔ تاکہ ایسی تقریریں طلبہ کے ذہن میں محفوظ ہوسکیں جن کی معاشرے کو ضرورت ہے۔
(3) تقریر یاد کرنے سے پہلے کسی استاذ کو سناکر دیکھ لیں، تاکہ تلفظ کی غلطیوں سے حفاظت ہوسکے۔ تلفظ کی اغلاط کی درستگی اور مشکل الفاظ کے معانی کی جانکاری کے لیے کسی معتبر لغت سے مدد لینا بھی مفید ثابت ہوتا ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ کوئی ڈائری بناکر مشکل الفاظ کا تلفظ اور معانی اس میں محفوظ کرلئے جائیں تاکہ بوقت ضرورت اس کی طرف مراجعت کی جاسکے۔ لکھنے سے بات جلد یاد ہوجاتی ہے۔
(4) تقریر وخطابت میں اپنی بات سامعین کے دل ودماغ میں اتارنے کے لئے ہاتھوں کے بر محل و مناسب اشارات کافی اہمیت رکھتے ہیں، عام طور پر نو آموز طلبہ کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ایک جملے پر دایاں ہاتھ اٹھاتے ہیں اور دوسرے پر بایاں، اس کی طرف توجہ نہیں دیتے کہ کہاں اشارہ کرنا چاہیئے اور کہاں نہیں، کس بات پر اشارہ اوپر کو ہونا چاہئیے کس بات پر نیچے کی طرف، ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے کسی ایسے استاذ سے جو تقریر وخطابت کا صاف ستھرا ذوق رکھتے ہوں اشاروں کا گر بھی سیکھا جائے۔
بعض طلبہ کو دیکھا گیا ہے وہ تقریر پیش کرتے وقت گھوم کر سامعین کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، اس سے پوری تقریر بے جان ہوجاتی ہےاور دائیں بائیں بیٹھے ہوئے سامعین سستی وبےتوجہی کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
(5) کسی بھی مسابقہ میں حصہ لینے سے پہلے گھڑی سامنے رکھ کر یہ اندازہ ضرور کرلینا چاہئیے کہ ہماری تقریر کتنے وقت میں پوری ہوگی، عام طور پر مسابقہ میں مساہمین کی کثرت کی وجہ سے ایک مساہم کو پانچ سات کا منٹ کا ٹائم دیا جاتا ہے، اس لئے یاد کی ہوئی تقریر کا اچھی طرح تجزیہ کرکے یہ طے کرلینا ضروری ہے کہ ٹائم کم ملنے کی صورت میں یاد کردہ تقریر میں سے کیا پیش کرنا ہے اور کیا حذف کرنا ہے، تقریر کا جو حصہ سامعین کے جذبات کو برانگیختہ اور ان کو متاثر کرنے والا ہو اسے پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے، ایسے موقع پر طویل خطبہ، غیر ضروری تمہید اور موضوع سے غیر متعلق مضمون کو حذف کردینا چاہئیے۔ لمبی تقریر کرنا کمال نہیں ہے بلکہ کمال یہ ہے کہ اصل اور بنیادی موضوع کو کم سے کم وقت میں مؤثر انداز میں بیان کردیا جائے ۔
یہ چند باتیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے ذہن میں ڈالیں، جو طلبہ کے سامنے عرض کردی گئیں۔
بعد میں مفتی محمد صابر صاحب زید مجدہ نے متوجہ کیا کہ طلبہ کے سامنے مضمون نگاری کی اہمیت پر بھی کچھ گفتگو ہوجاتی تو بہتر ہوتا۔ میں نے عرض کیا کہ اس کی طرف ذہن نہیں گیا، پہلے سے یہ بات کانوں میں ڈال دی جاتی تو اس تعلق سے ضرور کچھ عرض کیا جاتا ۔ خیر ! یار زندہ صحبت باقی
جامعہ احمد العلوم کے روح رواں حضرت مولانا مفتی محمد عمران صاحب دامت برکاتہم کی دعا پر مسابقہ کی یہ خوب صورت محفل اختتام پذیر ہوکر ماضی کی حسین یادوں میں شامل ہوگئی۔
رات بارہ بجے کا وقت ہوگا جب ہم کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر واپسی کے سفر پر رواں دواں تھے، ایک بجے مولانا محمد واصل صاحب کو ان کے وطن موضع بھورا پہنچا کر رات کو ڈیڑھ بجے جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت میں پہنچے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں