بادشاہی باغ کا سفر

 بادشاہی باغ کا سفر


از قلم: جاوید خلیل قاسمی بالوی


حضرت مولانا مفتی عبد الغنی صاحب ازھری دامت برکاتہم کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں ہے، آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے علمی وعملی کمالات سے نوازا ہے، ہماری سال گزشتہ حضرت سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی تھی، جس میں بہت سی علمی باتیں ہوئیں ، میں نے اجازت حدیث کے لیے درخواست کی، تو ہنس کر فرمانے لگے کہ یہ تو پہلی ملاقات ہے، جب دوبارا آؤگے تو اجازت دوں گا ۔ اسی وقت ارادہ کیا تھا کہ دوبارا جلد حاضر خدمت ہوکر روایتِ حدیث کی اجازت لوں گا ، لیکن پھر حضرت کشمیر تشریف لے گئے ، کئی ماہ وہاں قیام کرکے واپس تشریف لائے ، تو خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا ، لیکن مختلف موانع کی وجہ سے حاضری نہ ہوسکی ، پچھلے ہفتے جمعرات کو حضرت کے چھوٹے صاحب زادے قاری علی صابر سلمہ کو فون کرکے حاضر خدمت ہونے کی اطلاع دی، اور جمعرات ہی کو نماز ظہر سے قبل گڑھی دولت سے سفر شروع ہوا، مدرسہ احسن العلوم کیرانہ میں نمازِ ظہر ادا کی، پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق وہاں سے مولوی ارشد قاسمی اور قاری اویسی بدری رفقاء سفر میں شامل ہوئے ، قاری محمد عالم انبہٹوی اور مولوی حسین انبہٹوی پہلے ہی ساتھ تھے، مولوی حسین کی کار سے یہ سفر ہورہا تھا، ایک طرف سے تقریباً 150کلو میٹر کا سفر تھا، پورے سفر میں گاڑی ڈرائیو کی ذمے داری میرے سر ڈالی گئی تھی ، کیوں کہ صاحب کار ابھی گاڑی ڈرائیو کرنے میں ان کے بقول پختہ نہیں تھے۔ گنگوہ ، نکوڑ اور سرساوہ ہوتے ہوئے تقریباً ساڑھے چار بجے موضع ابراہیم پورہ پہنچ کر لب سڑک ایک مسجد میں نماز عصر ادا کی، وہاں سے روانہ ہو کر مغرب سے آدھا گھنٹہ پہلے حضرت صوفی معین الدین صاحب خلیفہ فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب سے ملاقات کے لئے قصبہ پٹھیڑ رکے، حضرت صوفی جی کو اللہ تعالیٰ نے تقوی و طہارت، خلوص و للہیت، اور سادگی و تواضع کا پیکر بنایا ہے ۔ حضرت بڑی شفقت ومحبت سے ملے، اصرار کرکے اپنے برابر میں بٹھایا، ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا اور چائے سے رفقاء سفر کی ضیافت فرمائی، عاجز روزے سے تھا، اس لئے حضرت کی بابرکت چائے سے محروم رہا، رخصت کی اجازت اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ آپ مسافر ہیں اور روزے سے بھی ہیں، دوران سفر اور افطار کے وقت میرے لیے دعا کرنا۔ اس سے بڑھ کر تواضع، عاجزی و انکساری کی مثال اور کیا ہوگی کہ جس کے پاس دور دراز سے دعاء کرانے کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے وہ اس سیاہ کار سے دعا کے لیے کہہ رہے تھے۔ حضرت صوفی جی سے رخصت ہو کر گھگھرولی پہنچے، نماز مغرب شروع ہوچکی تھی، عاجز نے پانی سے روزہ افطار کیا، پہلے سے باوضو تھے، جماعت میں شامل ہوگئے ، نماز سے فراغت کے بعد ایک طالب علم سے مولانا ڈاکٹر عبد المالک اور مولانا عبد الخالق صاحبان کے بارے میں معلوم کیا، پتہ چلا کہ اول الذکر سفر میں ہیں اور ثانی الذکر گھر تشریف لے جاچکے ہیں، وقت کم تھا اس لئے ہم آگے روانہ ہوگئے ، پہلے سے ہمارا پروگرام طے تھا کہ رات کو حضرت مولانا عبد الرشید صاحب دامت برکاتہم کے مدرسے میں مرزاپور قیام کریں گے ، اور صبح باد شاہی باغ کے لیے روانہ ہوں گے ، اس کی پہلے ہی مفتی محمد واصل صاحب گنگوھی استاد حدیث مدرسہ فیضانِ رحیمی مرزا پور کو اطلاع دے دی گئی تھی، مفتی واصل صاحب تو گھر جاچکے تھے ، ہم نے بھی ان کو روکنے کی کوشش نہیں کی ، کیونکہ ہم مدرس ہونے کے ناطے مدرسین کی مجبوریوں اور ان کی ضروریات سے بخوبی واقف ہیں، ان کے ہفتے بھر کے بہت سے کام تدریسی مصروفیات کی وجہ سے التوا کا شکار رہتے ہیں، جن کو جمعرات یا جمعہ ہی کو نمٹانے کا موقع ملتا ہے۔

عشاء سے تقریباً آدھا گھنٹہ پہلے مدرسہ فیضانِ رحیمی مرزا پور کے احاطے میں داخل ہوکر گاڑی پارک کی، ایک سن رسیدہ حافظ صاحب نے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں مہمان خانے میں لے آئے ، مہمان خانہ کا نقشہ کچھ یوں تھا، ایک کمرہ میں پانچ خوب صورت بیڈ، ان کے اوپر نفیس گرم بستر ، ایک گوشے میں عمدہ مصلی، ایک طاق میں تلاوت کے لیے تین چار قرآن کریم کے نسخے، ساتھ میں اٹیچ لیٹرین باتھ روم، جس میں گرم پانی کا انتظام، ایک تولیہ کمرے میں آویزاں اور دوسرا باتھ روم میں خدمت کے لیے تیار، دروازے کے باہر چھوٹا سا وضو خانہ، وہاں بھی گرم پانی کا نظم، برابر میں ایک کمرہ اور، جس میں کھانا کھلانے اور مہمانوں کی کثرت کی صورت میں لیٹنے کا فرشی انتظام۔ مہمان خانہ، مسجد اور مدرسے کی دیدہ زیب عمارت دیکھ کر دل نے گواہی دی کہ مدرسے کے منتظمین کو اللہ تعالیٰ نے دیگر بہت سی خوبیوں کے ساتھ صفائی ستھرائی کا عمدہ ذوق اور حسن سلیقہ کی دولت وافر مقدار میں عطا فرمائی ہے۔ تھوڑی دیر بعد ناشتہ آگیا ، ناشتے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ عشاء کی اذان ہوگئی ، مہمان خانے سے وضو کرکے مدرسے کی وسیع وعریض خوب صورت مسجد میں پہنچے ، مسجد میں سکون کا ماحول ، طلبہ موجود لیکن سب خاموش، کوئی شور شرابہ نہیں، نماز عشاء ادا کی۔ مہمان خانے میں پہنچے، تھوڑی دیر بعد حضرت مولانا عبد الرشید صاحب دامت برکاتہم خلیفہ حضرت مولانا محمد مکرم صاحب سنسار پوری، وروح رواں مدرسہ فیضانِ رحیمی اپنی ضعف وعلالت کے باوجود گھر سے صرف ہم مہمانوں سے ملنے کے لیے تشریف لے آئے، ملاقات ہوئی، علیک سلیک کے بعد خیریت معلوم کی، فرمانے لگے، سردی کافی زیادہ ہے، طبیعت بھی خراب ہے، تھوڑا چلنے کے بعد دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، لیکن جب آپ حضرات کے آنے کی خبر ملی تو طبیعت ملاقات کے لئے بے چین ہوگئی، اس لئے ہمت کرکے حاضر ہوگیا، اس کے بعد اپنی نگرانی میں اپنے سامنے کھانا کھلوایا، کھانے میں ہمارے لئے تکلف کیا گیا تھا ، تین طرح کے سالن، خشکہ اور گرم تندوری روٹی، کھانا لذیذ تھا، بھوک بھی اچھی خاصی لگی ہوئی تھی ، خوب پیٹ بھر کر کھایا ۔ اس کے بعد مولانا مہمان خانے میں تشریف لے آئے ، اور ہمارے ساتھ تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھ کر ہمیں اپنے قیمتی افادات و تجربات سے مستفید فرماتے رہے۔ مولانا نے بتایا کہ مرزا پور میں 29 برادریاں رہائش پذیر ہیں، یہ مدرسہ 1905ء میں حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم صاحب رائپوری نے قائم فرمایا تھا، لیکن آپسی اختلاف کا شکار رہا اور ترقی نہ کرسکا، 1965 میں مولانا موصوف مظاہر علوم سہارنپور سے فارغ التحصیل ہوئے، مفتی عبد العزیز صاحب رائپوری (جو اس وقت مظاہر علوم میں مدرس تھے) سے تعلق تھا، انہوں نے آپ کو ہریانہ کے ایک گاؤں میں بھیج دیا، وہاں دو سال کام کیا، 1967 میں حضرت مولانا زاہد حسن صاحب ابراہیمی کی نظر انتخاب آپ پر پڑی، انہوں نے مفتی عبد العزیز صاحب سے کہا کہ عبد الرشید کی مجھے ضرورت ہے، آپ کے پاس افراد کی کمی نہیں ہے، آپ ان کی جگہ کسی اور کو بھیج دیں، مفتی صاحب راضی ہوگئے، تو حضرت مولانا زاہد حسن صاحب آپ کو لے کر مرزا پور آئے، مدرسے کے انتظام کے حوالے سے مختلف برادریوں کی پنچایت ہو رہی تھی ، اس میں شریک ہوئے ، کامل ہوشیاری اور کامیاب حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے مدرسے کی ذمے داری مولانا موصوف کو سونپ دی، مولانا فرماتے ہیں کہ جب یہ حضرات میری تنخواہ اور دیگر امور طے کر رہے تھے، میں ایک گوشے میں خاموش بیٹھا ہوا یہ سوچ رہا تھا کہ آپ لوگ جو چاہے طے کرلو مُجھے تو یہاں رہنا نہیں ہے، دل کی یہ کیفیت شاید حضرت مولانا زاہد حسن صاحب پر بھی منکشف ہوگئی تھی ، اس لئے پنچایت ختم ہونے کے بعد انہوں نے مولانا موصوف کو اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیدیا ، رات کو ایک گاؤں میں قیام ہوا، جب سب خدمت کرنے والے چلے گئے تو مولانا زاہد حسن صاحب نے مولانا موصوف کو فرمایا کہ عبد الرشید! اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرکے کام شروع کردو، اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا ۔ بس وہ دن تھا اور آج کا دن مولانا موصوف برابر مدرسے کو ترقی دینے میں مصروف ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے مدرسے کو تعلیمی وتعمیری ہر اعتبار سے بڑی ترقی دی، ماشاءاللہ مدرسے میں درجات حفظ و ناظرہ ، فارسی ، ھندی اور انگریزی کے ساتھ عربی ہفتم (مشکوة شریف) تک تعلیم ہورہی ہے، اور طالبان علوم نبویہ کی ایک معتد بہ تعداد مولانا موصوف کے زیر انتظام اور با صلاحیت اساتذہ کے زیر نگرانی تعلیم و تربیت کے موتیوں سے اپنا دامن بھرنے میں مصروف ہے ۔ 

مولانا موصوف نے اپنے تجربات کی روشنی میں ایک قیمتی بات یہ ارشاد فرمائی کہ بزرگوں اور اپنے بڑوں سے تعلق رکھنا اور ان کے قریب لگنا چاہیئے ، جو اپنے بڑوں سے جڑے رہے اور ان کے قریب رہے، گو ان کی علمی لیاقت بہت زیادہ اچھی نہ تھی، اللہ تعالیٰ نے ان سے کام لے لیا ۔ 

میں نے آپ کی خدمت میں اپنی دو کتابیں: "درس ہدایت النحو" اور "نحومیر اردو مع تمرین وتعلیق" پیش کی، تو لے کر کتابوں کو چوما اور دعائیں دیں، یہ منظر دیکھ کر مجھے حضرت مولانا مفتی افتخار الحسن کاندھلوی اور حضرت مولانا محمد کامل صاحب سابق مہتمم جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت یاد آگئے، ان کو جب بھی میں اپنی کوئی نئی کتاب پیش کرتا، تو کتاب کو لے کر چومتے، سر پر رکھتے، خوشی کا اظہار فرماتے اور دعائیں دیتے۔ 

نماز فجر کے بعد مولانا موصوف کی خانقاہ میں ذکر کی مجلس ہوتی ہے، اس میں شریک ہوئے ، مولانا تو اپنی علالت اور سردی کی شدت کی وجہ سے تشریف نہ لاسکے، آپ کے بھتیجے مولانا محمد ذاکر صاحب کی نگرانی میں مجلس ذکر منعقد ہوئی ، مجلس کا اختتام مولانا ذاکر صاحب کی دعا پر ہوا، اس کے بعد مولانا ذاکر صاحب کی معیت میں ناشتہ ہوا، ناشتہ کے دوران مولانا موصوف نے فون کرکے خیریت دریافت کی، ناشتہ کے بارے میں پوچھا ، صبح مدرسے میں نہ آسکے تھے، اس پر بڑی ندامت و شرمندگی کا اظہار فرما رہے تھے ، تمام ساتھیوں کو سلام ودعا کے ساتھ رخصت فرمایا، واپسی میں دوپہر کے کھانے کی دعوت بھی دی، جس سے یہ کہہ کر معذرت کرلی گئی کہ رائپور کی طرف سے واپسی ہوگی، اور موضع تاتاہیڑی میں پہلے سے ولیمہ کی دعوت طے ہے۔ حضرت مولانا عبد الرشید صاحب دامت برکاتہم کی اس ذرہ نوازی نے ہمارے دلوں پر شفقت ومحبت کا گہرا نقش چھوڑا، آپ کی یہ محبت، شفقت، عنایت اور نوازش ہمیشہ یاد رہے گی۔ بے پناہ تواضع، عاجزی، انکساری، حسن انتظام، حسن تربیت اور اعلی درجے کی مہمان نوازی مولانا موصوف کا خاص وصف نظر آیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ تادیر صحت و عافیت کے ساتھ قائم رکھے ۔ آمین 

صبح آٹھ بجے ہم مرزا پور سے دار العلوم نظامیہ مگن پورہ نزد بادشاہی باغ کے لئے روانہ ہوئے، آج خلاف معمول موسم صاف تھا، کہرا نہیں تھا، آسمان پر بادل اور سورج کی آنکھ مچولی کا کھیل جاری تھا، تقریباً ساڑھے آٹھ بج رہے ہوں گے جب ہماری گاڑی دار العلوم نظامیہ کے مرکزی گیٹ میں داخل ہورہی تھی، یہی ہمارے آج کے سفر کی اصل اور آخری منزل تھی، ہم سیدھے حضرت مولانا مفتی عبد الغنی صاحب ازھری دامت برکاتہم کی نشست گاہ پر پہنچے، ملاقات کا کمرہ تو کھلا ہوا تھا ، مگر جس کمرے میں بیٹھ کر حضرت زائرین سے ملاقات کرتے ہیں اس کی کھڑکی بند تھی ، پوچھنے پر ایک طالب علم نے بتایا کہ حضرت کی طبیعت خراب ہے، ملاقات نہیں ہوگی، میں نے کئی بار حضرت کے صاحب زادے قاری علی صابر کو فون کیا، بیل جاتی رہی، لیکن انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا، مسجد کے صحن میں مولانا عمر دین صاحب ساکن تیتر واڑہ (جو عرصے سے یہیں حضرت کی خدمت میں مقیم ہیں) سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی یہی کہا کہ طبیعت زیادہ خراب ہے، ملاقات بہت مشکل ہے تاہم میں کوشش کرتا ہوں، وہ حضرت کے کمرے میں اندر گئے، کچھ دیر بعد حضرت کے خادم کے ساتھ باہر آکر یوں گویا ہوئے کہ: صرف زیارت ہوگی۔ ڈاکٹروں نے بولنے سے منع کیا ہے، اس لئے سلام کرنا نہ کوئی بات۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے، صرف زیارت ہی پر اکتفا کریں گے، خادم ہمیں ملاقات والے کمرے میں بٹھا کر پانچ چھہ منٹ کا وعدہ کرکے اندر چلا گیا، لیکن پھر یہ زیارت کا وعدہ بھی ہمیں زیارت سے ہم کنار کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا، وقت تیزی سے گزر رہا تھا، انتظار کے لمحات دراز سے دراز تر ہوتے جا رہے تھے، ملاقات اور اجازت حدیث کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہی دم توڑتا نظر آرہا تھا، کہ اچانک مدرسے کے ایک نوجوان مدرس جو بہار سے تعلق رکھتے ہیں تشریف لائے، نام ہم معلوم نہیں کرسکے، انہوں نے شاید خود بتانا غیر ضروری سمجھا، دار العلوم دیوبند کے فاضل ہیں، اور 2017 سے یہاں درس نظامی کی مختلف کتابیں پڑھارہے ہیں، انہوں نے مُجھے پہچان لیا، وہ یہاں دیگر کتابوں کے ساتھ نحومیر بھی پڑھاتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال سے یہاں آپ کی مرتب کردہ "نحومیر اردو" پڑھائی جا رہی ہے، وہ ہمیں برابر والے کمرے میں لے گئے، جہاں گدے بچھے ہوئے تھے، وہاں بیٹھ کر انہوں نے بھی یہی خبر دی کہ ملاقات ہوسکے گی نہ زیارت، پوری رات حضرت کی بے چینی میں گزرتی ہے، نیند نہیں آتی، رات بھی سہارنپور سے ڈاکٹروں کی ٹیم معائنہ کرنے کے لیے آئی تھی، فی الحال منھ پر کمبل ڈال کر آرام کر رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ حضرت کے بڑے یا چھوٹے صاحب زادے ہوں تو ان کو بلوا دیں، انہوں نے فون کیا تو پتہ چلا کہ دونوں صاحب زادے مدرسے سے باہر ہیں، میں نے کئی بار قاری علی صابر کو فون کیا، لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا، اگر وہ کل ہی جب ان سے فون پر بات ہوئی تھی، یا آج فون ریسیو کرکے ہمیں بتادیتے کہ حضرت کی طبیعت زیادہ خراب ہے، ملاقات نہیں ہوسکے گی تو ہم طویل سفر کی زحمت اور یہاں آکر دو ڈھائی گھنٹے کے انتظار وبے اطمینانی کی مشقت سے بچ جاتے۔ تقریباً گیارہ بجے ہوں گے جب ہم حضرت مفتی صاحب کی ملاقات وزیارت سے مایوس ہوکر حضرت کے لیے صحت و شفا یابی کی دعا کرتے ہوئے دار العلوم نظامیہ کے صدر گیٹ سے نکل رہے تھے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے، بندے کی ہر تمنا وچاہت پوری نہیں ہوا کرتی۔ اب ہمیں ہتھنی کنڈ سے ہوتے ہوئے خانقاہ رائپور میں حاضر ہونا تھا۔ راستے میں تھوڑی دیر ہتھنی کنڈ ڈیم پر رک کر وہاں کے خوب صورت مناظر سے لطف اندوز ہوئے، تقریباً ساڑھے گیارہ بجے خانقاہ رائپور میں پہنچے، منشی عتیق احمد صاحب سے ملاقات اور ناشتہ ہوا، پھر حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم صاحب رائپوری نور اللہ مرقدہ کے مزار پر حاضر ہوکر فاتحہ پڑھی۔ ٹھیک 12 بجے دوپہر موضع تاتاہیڑی نزد قصبہ گنگوہ کے ارادے سے رائپور سے رخت سفر باندھا، راستے میں مدرسہ کنز العلوم ٹڈولی رک کر نماز ظہر ادا کی، مولانا محمد عامر صاحب مہتمم مدرسہ کنز العلوم ٹڈولی سے ملاقات اور چائے نوشی کے بعد، سفر کے دوش پر سوار ہوکر نوجوان خوش الحان قاری عزیزم قاری محمد صادق صاحب سلمہ کے ولیمہ میں شرکت کے ارادے سے موضع تاتاہیڑی پہنچے، کھانے سے فراغت کے بعد مفتی محمد صابر صاحب ناظم جامعہ احمد العلوم خانپور کی دعوت پر تھوڑی دیر کے لیے جامعہ احمد العلوم خانپور کے دار جدید میں حاضر ہوئے، وہاں پہلے سے دار العلوم دیوبند کے کچھ مؤقر اساتذہ کرام اور مولانا محمد عاقل صاحب مہتمم جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت (جو قاری صادق صاحب کے ولیمہ میں شرکت کے لیے آئے تھے) تشریف فرما تھے، ان سے اور مفتی محمد عمران صاحب مہتمم جامعہ احمد العلوم خانپور اور مفتی محمد صابر صاحب سے ملاقات ہوئی، ان حضرات کے ساتھ مختصر نشست و ناشتے کے بعد واپسی کے سفر پر رواں دواں ہوگئے۔ نماز عصر قصبہ تیتروں میں اور نماز مغرب کیرانہ میں ادا کی، عشاء سے کچھ پہلے گڑھی دولت پہنچ کر ہمارا یہ سفر ماضی کا حصہ بن گیا۔ 


رہے نام اللہ کا !!

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حزب البحر مع طريق زکوۃ

زندہ مرغی تول کر بيچنے کا حکم

مفتی قاسم جلال آبادی