تعزیت


 تعزیت

بموقع وفات والدہ قاری مسعود احمد صاحب استاذ مظاہر علوم سہارنپور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جناب قاری مسعود احمد صاحب


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 


آپ کی والدہ کی علالت کی خبریں کئی دن سے متواتر مل رہی تھیں، اور اسی وقت سے ان کے لیے دعائے صحت بھی جاری تھی، لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی کے سامنے کسی کی نہیں چلتی، جب وقت پورا ہو جاتا ہے، ساری دنیا مل کر بھی کسی کو موت کے منہ میں جانے سے نہیں بچا سکتی۔ والدہ انسان کے لیے ایسی نعمت ہوتی ہے کہ دنیا کی کوئی چیز اس کا نعم البدل تو کیا ادنی بدل بھی نہیں بن سکتی، ماں کی ممتا وہ چیز ہے جس کو ساری دنیا دے کر بھی کہیں سے خریدا نہیں جاسکتا۔ ماں ہی وہ واحد شخصیت ہے جس کے قدموں کے نیچے جنت رکھی گئی ہے۔ ماں جب منہ موڑ لیتی ہے تو دنیا اپنی تمام تر رعنائیوں اور رنگینیوں کے باوجود اجاڑ سی محسوس ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے چلتی پھرتی ہنستی مسکراتی زندگی تھم سی گئی ہو، آپ والدہ کے چلے جانے سے رنج و الم کی جس کیفیت سے دو چار ہوئے ہیں میں اسے بخوبی سمجھ سکتا ہوں، کیوں کہ میں بھی اس مرحلے سے گزر چکا ہوں ۔ ایسے وقت میں صبر ہی ایک مسلمان کا سب سے بڑا سہارا ہوا کرتا ہے، جس میں اجر و ثواب بھی ہے اور غم کی کیفیات کو کم کرنے کا سامان بھی۔ بس صبر سے کام لیجئے، اور ذرا اس پہلو پر بھی تو نظر ڈالئیے کہ آپ کو تو والدہ کی زندگی کا ایک طویل دورانیہ دیکھنے کو ملا ہے، بہت سے لوگ ایسے بھی تو ہیں جنہیں اپنی والدہ کا چہرہ تک دیکھنا بھی نصیب نہ ہوسکا، وہ دنیا میں آئے اور ماں آخرت کو سدھار گئی، بعض وہ ہیں جنہیں سال دوسال یا اس سے کچھ زیادہ ماں کی محبت مل سکی، پھر ان کی ماں ان کو روتے بلکتے اور بے سہارا چھوڑ کر وہاں چلی گئی جہاں جاکر کوئی واپس نہیں آتا ۔ 

ہم آپ کے رنج و وغم اور دکھ میں برابر کے شریک ہیں، اور بارگاہ رب العزت میں دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی والدہ کو مغفرت اولی بلا حساب عطا فرمائے ، اور آپ کو ، آپ کے تمام بہن بھائیوں اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین


جاوید خلیل غفر لہ

جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت

18/ 6/ 1444ھ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حزب البحر مع طريق زکوۃ

زندہ مرغی تول کر بيچنے کا حکم

مفتی قاسم جلال آبادی