حضرت الحاج شاه صوفي معين الدين صاحب
خانقاہ معینیہ پٹھیڑ، نزد چلکانہ ، ضلع سہارن پور (یو۔پی)
حضرت الحاج شاہ صوفی معین الدین صاحب دامت فیوضہم
از: محمد جاوید قاسمی
استاذ حدیث و مفتی
جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت
انسان کو اللہ تعالی نے دنیا میں اپنی عبادت و بندگی کے لئے پیدا کیا ہے، دنیا اور اس کی تمام چیزیں انسان کے نفع و فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہیں؛ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ انسان جس چیز سے سب سے زیادہ غافل ہے وہ یہی عبادت و بندگی ہے، اور جس چیز کی طرف وہ سب سے زیادہ متوجہ اور اس کے حصول کے لیے کوشاں ہیں وہ دنیا کا مال و متاع ہے۔ دنیا اور یہاں کی ہر چیزفانی ہے ،آخرت اور وہاں کی ہر چیز باقی ہے ، شریعت اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ باقی کو فانی پر ترجیح دی جائے؛ لیکن انسان ہر طرف دنیاکی فناء و ناپائیداری کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور پھر اسی سے دل لگاتا ہے، اور آخرت کو فراموش کئے بیٹھا ہے۔ آپ جدھر بھی دیکھئے ، ہر جگہ ایسے غافل انسانوں کا ایک جم غفیر نظر آئے گا۔ لیکن انسانوں کے انبوہ میں آپ کو اللہ کے کچھ ایسے مخصوص بندے بھی دکھائی دیں گے جنہوں نے اپنے مقصدِ تخلیق اور مقصدِ حیات کو اچھی طرح سمجھا ہے، دنیا کی فناء اور آخرت کی بقاء کا حقیقی ادارک اُن کو عطاء ہوا ہے ،دنیا کی رنگینیوں کے بجائے وہ ہر وقت آخرت کی تیاری اور اپنے رب کی رضاء و خوشنودی کے حصول کے لیے بے چین و مضطرب نظر آتے ہیں، وہ دنیا میں رہتے ہیں ؛ لیکن دنیا کی محبت سے ان کے دل پاک ہیں۔ وہ دنیا کی چیزیں استعمال کرتے ہیں ؛ لیکن شوق پورا کرنے کے لیے نہیں ؛ بلکہ صرف ضرورت کی تکمیل کے لیے۔ وہ لوگوں سے ملتے جلتے ہیں ؛ لیکن ان کی زبان اور دل و دماغ ہروقت یادِ الہی میں مستغرق رہتا ہے، ان کا نفس جس چیز کی خواہش کرتا ہے وہ اسے چھوڑ کر اپنے نفس کی مخالفت کرتے ہیں؛ مجاہدات و ریاضات ان کی غذا اور سنت و شریعت پر عمل ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، ان کا کھانا پینا،سونا جاگنا ، ملنا جلنا ،چلنا پھرنا ، سیر وتفریح اور چھوٹا بڑا ہر کام صرف اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی کے لیے ہوتا ہے۔
اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیا آپ نے بھی کوئی ایسا ولی اوراللہ کا مخصوص بندہ دیکھا ہے؟ تو میں کہوں گا کہ جی ہاں! دیکھا ہے، دور دراز کے علاقے میں نہیں؛ بلکہ اپنے ہی دیار اور اپنے ہی خطے میں ، میں نے خانقاہ معینیہ پٹھیڑ کے میر مجلس حضرت الحاج شاہ صوفی معین الدین صاحب دامت فیوضہم کو دیکھا ہے۔ آپ بھی خانقاہ معینیہ پٹھیڑ نزد چلکانہ ضلع سہارن پور جاکر دیکھئے، خانقاہ میں داخل ہوتے ہی آپ کو روحانیت کی بھینی بھینی خوشبو محسوس ہوگی، دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی رغبت کا احساس ہوگا، دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی پائیداری پر یقین میں اضافہ ہوگا، گناہوں پر ندامت اور طاعت و عبادت کی طرف میلان محسوس ہوگا،شہرت سے نفرت اور خلوت سے محبت پیدا ہوگی، دل میںکبر و نخوت سے وحشت اور تواضع و سادگی سے محبت کا واضح ادراک ہوگا۔
اللہ تعالی نے حضرت صوفی جی دامت برکاتہم کو بہت سے اوصاف حمیدہ اور کمالات سے نوازا ہے، حضرت کے اوصاف و کمالات میں ۴؍ اوصاف زیادہ نمایاں ہیں ، جو بھی آپ سے ملتا ہے وہ ان کو واضح طور پر محسوس کرتا ہے: (۱) اخلاص و للہیت (۲) تواضع و سادگی (۳) خدمت(۴) ادب۔
اخلاص و للہیت وہ وصف ہے کہ جس کے بغیر کوئی بھی چھوٹا بڑا عمل اللہ تعالی کے یہاں قبول نہیں ہوتا،اخلاص نہ ہو تو نماز ،روزہ، زکوۃ و صدقات، عمرہ و حج ، تعلیم و تبلیغ ، تصنیف و تالیف، جہاد و قتال،ذکر واذکار اور مجاہدات وریاضات سب رائیگاں ہیں، ان پر اللہ تعالی کے یہاں کوئی اجر و ثواب نہیں ، اور اخلاص ہو تو چھوٹا سا عمل بھی عند اللہ قبولیت کا مقام پالیتا ہے۔ حضرت صوفی جی مدظلہ کو اللہ تعالی نے اخلاص و للہیت کے وصف سے خوب نوازا ہے، آپ چھوٹا بڑا ہر کام صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے کرتے ہیں، آپ کے شب وروز کے تمام معمولات میں اخلاص و للہیت کا بنیادی عنصر شامل ہوتا ہے، ریاء و دکھاوے سے آپ کوسوں دور ہیں، چھپر پر مشتمل آپ کی نشست گاہ اس کی روشن مثال ہے، جس عمل میںذرا سا بھی ریا کاری اور دکھاوے کا شبہ ہوتا ہے آپ فوراً خود کو اُس سے الگ کرلیتے ہیں، جہاں ذرا بھی نمایاں ہونے اور آگے بڑھنے کا موقع آتا ہے نہایت خاموشی سے اپنے آپ کو پیچھے کرلیتے ہیں، اچھی دعاء کرانا جانتے ہیں ؛ لیکن جب کسی جلسے اور بڑے اجتماع میں آپ سے دعاء کرانے کی درخواست کی جاتی ہے تو حکمت کے ساتھ ٹال جاتے ہیں اور اپنے چھوٹوں کو آگے کردیتے ہیں، ایسے موقع پر خود کو چھپانے کی بھرپور کوشش فرماتے ہیں۔
تواضع و سادگی آپ پر اتنی غالب ہے کہ آپ کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا خمیر ہی تواضع و سادگی سے اٹھا ہے،لباس و پوشاک، وضع قطع، رہن سہن ، رفتار و گفتار ، نشست و برخاست ،خورد و نوش اور میل ملاقات ہر چیز میں سادگی ، تواضع ، عاجزی و انکساری آپ کی پہچان ہے، معمولی لنگی و سادہ کرتا آپ کا لباس ہے، یہی حضر کا لباس ہے اور یہی سفر کا، جلسوں اور پرگراموں میں بھی اسی سادہ لباس میں نظر آتے ہیں،دو زانوں بیٹھتے ہیں،ہمیشہ گردن جھکی رہتی ہے۔ میں نے علماء ، صلحاء اور بزرگانِ دین کی جماعت میں اتنی تواضع و سادگی اور عاجزی ومسکنت بہت کم لوگوں میں دیکھی ہے۔
آپ کے اندر خدمتِ خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواہے،ضعف و پیرانہ سالی کے باوجود گھنٹوں بیٹھ کرواردین وصادرین سے ملاقات کرتے ہیں ، ہر ایک کی پریشانی سنتے ہیں ، اس کا حل و علاج بتاتے ہیں،اوراد و وظائف تلقین فرماتے ہیں، تصوف و سلوک کے اسباق دیتے ہیں، ہر آنے والے کی ضیافت فرماتے ہیں۔ اپنے کام خود کرتے ہیں ، دوسروں سے ذاتی کام لینا پسند نہیں فرماتے۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت آپ کا خاص وصف ہے، علماء و صلحاء کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں۔
آپ کے صاحب زادے مولانا محمد صادق صاحب نقشبندی خلیفہ حضرت پیر فقیر ذوالفقار صاحب نقشبندی کا بیان ہے کہ آپ کے زیر استعمال جس چیز کے بارے میںبھی کسی نے یہ کہہ دیا کہ یہ اچھی لگ رہی ہے ، آپ نے اسے اپنے پاس نہیں رکھا، فوراً دوسروں کو دیدیا۔
ایک بار آپ نے لمبے بال رکھ لیے ، کسی نے یہ کہہ دیا آپ کے بال اچھے لگ رہے ہیں ، تو کہا کہ اچھا، فوراً نائی کو بلایا ، اور بال کٹادئیے۔
سردی کا موسم تھا، کافی ٹھنڈ تھی آپ نے مولانا محمد صادق صاحب سے فرمایا کہ سردی کافی زیادہ ہے ، گرم پانی کا انتظام کراؤ، مولانا صادق صاحب نے گیزر لگواکر آپ کو اطلاع دی کہ گرم پانی کا انتظام کردیا گیا ہے؛ آپ نے کہا کہ اسے ابھی چالو نہ کریں، کئی دن اسی طرح گذرگئے ،گرم پانی کا انتظام ہونے کے باوجود ٹھنڈے پانی سے وضو کرتے رہے، جب وجہ پوچھی گئی تو کہا کہ مدرسہ میں طلبہ و اساتذہ ٹھنڈے پانی میں وضو کریں اور میں گرم پانی استعمال کروں ، اس کے لیے طبیعت آمادہ نہیں ہے؛ طلبہ و اساتذہ کے لیے بھی گرم پانی کا انتظام کراؤ اس کے بعد یہ گیزر چالو کرنا، جب طلبہ و اساتذہ کے لیے گرم پانی کا انتظام ہوگیا تب آپ نے وہ گیزر چالو کرایا جو کئی دن پہلے سے آپ کی قیام گاہ میں لگایا جاچکا تھا۔ اس طرح کے مجاہدات و ریاضات و نفس کشی کے واقعات سے آپ کی زندگی بھری ہوئی ہے۔
اللہ تعالی حضرت والا کو صحت وعافیت کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائے ، تا دیر آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے، اور ہم سب کو آپ کے روحانی فیض سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں