جان دار کی تصویر اور ویڈیو کا حکم
*جاندار کی تصویر اور ویڈیو کا حکم*
از : مفتی محمد جاوید خلیل قاسمی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں جن چیزوں کو صراحتاً ممنوع اورحرام قرار دیا ہے ان میں جاندار کی تصویر بھی ہے متعدد احادیث میں تصویر کی حرمت، قباحت اور اس پر اخروی عذاب کی وعید بیان کی گئی ہے۔
"عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أشد الناس عذاباً يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله»". (مشكاة المصابيح (2/385، باب التصاویر، ط: قدیمي) (صحیح البخاري (2/880، ط: قدیمي)
ترجمہ: حضرت عائشہ ؓ ، رسول کریمﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔ (مظاہر حق جدید(4/229) ط: دارالاشاعت)
"عن عبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أشد الناس عذاباً عند الله المصورون»" . (مشكاة المصابيح (2/385، باب التصاویر، ط: قدیمي) (الصحیح لمسلم (3/1667، برقم: 2107، ط: دار إحیاء التراث العربي)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب کا مستحق، مصور (تصویر بنانے والا)ہے“۔(مظاہر حق جدید(4/230) ط: دارالاشاعت)
"عن ابن عباس قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «كلّ مصوِّر في النار يجعل له بكلّ صورة صوّرها نفسًا فيعذبه في جهنم".(مشكاة المصابيح (2/385، باب التصاویر، ط: قدیمي)
ترجمہ: حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ” ہر مصور دوزخ میں ڈالا جائے گا، اور اس کی بنائی ہوئی ہر تصویر کے بدلے ایک شخص پیدا کیا جائے گا جو تصویر بنانے والے کو دوزخ میں عذاب دیتا رہے گا“۔(مظاہر حق جدید(4/230، ط: دارالاشاعت)
وعن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: یخرج عنق من النار یوم القیامة لہا عینان تبصران وأذنان تسمعان ولسان ینطق، یقول: إنی وکلت بثلاثة: بکل جبار عنید وکل من دعا مع اللہ إلہا آخر وبالمصورین“ قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح ۔ رواہ الترمذي (حدیث 2574)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن جہنم سے ایک گردن نکلے گی اس کی دو آنکھیں ہوں گی جو دیکھیں گی، دو کان ہوں گے جو سنیں گے اور ایک زبان ہو گی جو بولے گی، وہ کہے گی: مجھے تین لوگوں پر مسلط کیا گیا ہے: ہر سرکش ظالم پر، ہر اس آدمی پر جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارتا ہو، اور تصویر بنانے والوں پر“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
وعن سعید بن أبی الحسن قال: کنت عند ابن عباس إذ جاءہ رجل فقال: یا ابن عباس! إنی رجل إنما معیشتی من صنعة یدی، وإني أصنع ہذہ التصاویر، فقال ابن عباس: لاأحدثک إلا ما سمعت من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سمعتہ یقول: ”من صور صورة فإن اللہ معذبہ حتی ینفخ فیہ الروح ولیس بنافخ فیہا أبدا“فربا الرجل ربوة شدیدة واصفر وجہہ، فقال: ویحک إن أبیت إلا أن تصنع فعلیک بہذا الشجر وکل شی لیس فیہ روح۔ رواہ البخاري (حدیث 2225) ۔
ترجمہ: سعید بن ابی حسن کہتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا، اور کہا کہ اے ابوعباس! میں ان لوگوں میں سے ہوں، جن کی روزی اپنے ہاتھ کی صنعت پر موقوف ہے اور میں یہ تصویریں بناتا ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس پر فرمایا کہ میں تمہیں صرف وہی بات بتلاؤں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آپﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جس نے بھی کوئی تصویر بنائی تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک عذاب دیتا رہے گا جب تک وہ شخص اپنی بنائی ہوئی تصویر میں جان نہ ڈال دے اور وہ کبھی اس میں جان نہیں ڈال سکتا۔ (یہ سن کر) اس شخص کا سانس پھول گیا اور چہرہ زرد پڑ گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ افسوس! اگر تم تصاویر بنانی ہی چاہتے ہو تو ان درختوں کی اور ہر اس چیز کی جس میں جان نہیں ہے تصاویر بنا سکتے ہو۔ [صحيح البخاري/كتاب البيوع/حدیث: 2225]
جاندار کی تصویر کو تین قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1- مجسمہ
2- کاغذ، بورڈ اور دیواروں پر بنی ہوئی پینٹنگ، خواہ ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا کیمرے سے تصویر لے کر اس کو کاغذ وغیرہ پر پرنٹ کیا گیا ہو۔
3- موبائل اور ڈیجیٹل کیمرے سے لی گئی تصویر جو کاغذ وغیرہ پر پرنٹ نہ کی گئی ہو، بلکہ صرف اسکرین پر نظر آتی ہو۔
پہلی قسم کی تصویر ( مجسمہ) بنانا اور اسے رکھنا بالاتفاق حرام ہے۔
دوسری قسم کی تصویر ضرورت و مجبوری کی صورت میں جائز ہے مثلآ سرکاری آئی ڈیز وغیرہ میں لگی ہوئی تصویر ۔ اور بلا ضرورت ایسی تصویر کھینچنا، بنانا اور اسے رکھنا بالاتفاق ناجائز ہے ۔
تیسری قسم کے بارے معاصر علماء کا اختلاف ہے، چند علماء اس کو تصویر نہیں مانتے، بلکہ اسے عکس قرار دیتے ہیں، اسی بناء پر وہ اسے جائز کہتے ہیں۔ جبکہ اکثر علماء، مفتیان کرام اور ہند وپاک اور بنگلہ دیش کے معتبر دار الافتاء اسے بھی تصویر مانتے ہیں اور پرنٹ شدہ تصویر کی طرح اسے بھی ناجائز اور حرام قرار دیتے ہیں۔ احادیث کا عموم بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔
ذیل میں چند معتبر مفتیان کرام اور بڑے اداروں کے دار الافتاء سے صادر ہونے والے فتاویٰ کو پیش کیا جاتا ہے ۔
*دار الافتاء دار العلوم دیوبند کا فتویٰ:*
بعض اہل علم کا رحجان ڈیجیٹل تصویر کے جواز کی طرف ہے جس کی بنیاد دو باتوں پر ہے:
1...یہ اشبہ بالعکس ہے جو پائید ار نہیں ہے، اس لیے تصویر کے حکم میں داخل نہیں ہے۔
2...اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط قسم کے پروپیگنڈے میڈیا کے ذریعے کیے جارہے ہیں، جن کے دفاع کے لیے ٹی وی پر آنے کی شدید ضرورت پیدا ہو گئی ہے ، اس رحجان پر مبنی ایک بڑے ادارے کا مفصل فتوی مفتی عبدالرحمن صاحب نے بنگلہ دیش سے حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کی خدمت میں ارسال کرکے اس مسئلے میں دارالعلوم دیوبند کا موقف معلوم کیا تھا۔ جس کا مندرجہ ذیل جواب دار العلوم دیوبند کے دار الافتاء سے جاری کیا گیا تھا:
بسم الله الرحمن الرحیم
مخدوم ومکرم گرامی مرتبت حضرت مہتمم صاحب زیدت معالیکم… السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ!
آپ نے فتاوے ارسال کرکے دارالعلوم دیوبند کا موقف معلوم کیا ہے، اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت اسکرین پر جو مناظر، یعنی تصویریں وغیرہ آتی ہیں، وہ سب شرعاً تصویر کے حکم میں ہیں ، یہ سینما کی تصویروں کے مثل ہیں، فرق اتنا ہے کہ سینما میں ریز ( بہانے والا کسی چیز کا ٹکڑا) سامنے سے ڈالی جاتی ہے اور ٹی وی میں پیچھے سے، جو مفاسد سینما کی تصویروں سے پیدا ہوتے ہیں ، وہی سارے مفاسد ٹی وی کی تصویروں سے بھی پیدا ہوتے ہیں، اس لیے ان تصاویر کا دیکھنا شرعاً ناجائز قراردیا جائے گا، دارالعلوم دیوبند کے اربابِ افتاء کا فتویٰ اور موقف یہی ہے، البتہ شرعی ضرورت اور اضطرار کی حالت کے احکام اور ہوں گے۔
فقط والسلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ
حبیب الرحمن عفا الله عنہ، مفتی دارالعلوم دیوبند 1430/4/28
الجواب صحیح: محمود حسن بلند شہری غفرلہ، وقار علی غفرلہ، فخر الاسلام عفی عنہ
زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، نائب مفتی دارالعلوم دیوبند
*دار الافتاء دار العلوم دیوبند کا ایک اور فتویٰ جو دار العلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے:*
"اسلام میں انسان یا کسی بھی جان دار کی ویڈیو سازی اور تصویر کشی حرام وناجائز اور لعنت کا کام ہے اور احادیث میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں (تفصیل کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رح کا رسالہ تصویر کے شرعی احکام ملاحظہ فرمائیں) ۔ اور اکابر علمائے دیوبند کے فتاوی اور ان کی تصریحات کی روشنی میں ڈیجیٹل تصاویر، عام تصاویر ہی کے حکم میں ہیں، یعنی: نصوص شرعیہ دونوں ہی قسم کی تصاویر کو شامل ہیں۔
اور اہل علم، شریعت کی حدود اور دائرہ میں رہ کر ہی تبلیغ دین کے مکلف ہیں، اس سے آگے نہیں، یعنی: تبلیغ دین کے جتنے جائز ذرائع اور وسائل اہل علم کے بس میں ہیں، اہل علم ان ذرائع اور وسائل سے تبلیغ دین کے مکلف ہیں ، کسی ناجائز اور گناہ کے ذریعہ سے اہل علم تبلیغ کے مکلف نہیں ہیں؛ بلکہ اگر ناجائز ذرائع اور وسائل سے تبلیغ دین جائز ہی نہیں ہے ؛ کیوں کہ احکام دین کی پامالی کے ساتھ دین کی نہیں، کسی اور چیز کی تبلیغ ہوگی۔ نیز اسلام پھیلانے کے طریقے اور ہیں اور کفر وضلالت کے پھیلانے کے طریقے اور؛ اسی لیے دور اول سے اہل حق کی کسی جماعت نے تبلیغ دین کے لیے کوئی ناجائز اختیار نہیں کیا؛
اس لیے تبلیغ دین کے لیے (انسان یا کسی بھی جاندار کی) تصویر کشی اور ویڈیو سازی کا راستہ اختیار کرنا جائز نہ ہوگا۔"
*دار العلوم دیوبند کا ایک اور فتویٰ:*
"شریعت میں جس طرح کسی جان دار کی تصویر کھینچنا اور بنانا ناجائز ہے، اسی طرح جان دار کی تصویر دیکھنا بھی ناجائز ومنع ہے ؛لہٰذا مرد حضرات یا عورتیں کوئی بھی دینی یا دنیوی بیان موبائل وغیرہ پر ویڈیو کے ساتھ نہیں سن اور دیکھ سکتیں؛ البتہ اگر ویڈیو بیان آڈیو میں تبدیل کرلیا جائے اور وہ کسی معتبر عالم دین کا بیان ہو تو اس سے استفادہ کرنے میں کچھ حرج نہیں۔"
*حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ:*
حضرت مولانا شیخ حکیم فضل الکریم صاحب الحسینی مفتی اعظم مدنی دارالافتاء، آسام نے حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ سے تصویر کشی کے ابتلائے عام ہو جانے کی وجہ سے اس کے جواز وعدم جواز کی بابت دریافت کیا، حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم نے درج ذیل تحریر ارقام فرمائی۔
بسم الله الرحمن الرحیم
مکرم ومحترم زید مجدکم!……… السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ
آپ نے فوٹو کے تعلق سے دریافت کیا ہے کہ جائز ہے یا ناجائز؟ اور ناجائز ہے تو اکابر کا عمل اس سے مختلف کیوں ہے ؟ عام طو رپر بڑے بڑے لوگ جلسوں میں او رکانفرنسوں میں بے دھڑک فوٹو کھنچواتے ہیں، بلکہ اب تو بعض بڑے ٹی وی پر بھی آنے لگے ہیں۔
تو اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ برصغیر ( انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش) کے تمام مفتیان کرام بالاتفاق فتوی دیتے ہیں: کیمرے کا فوٹو بھی حرام ہے ، حدیث صحیح میں جس تصویر کی ممانعت آئی ہے، وہ اس تصویر کو بھی شامل ہے ، مصر او رعرب کے بعض علماء اس میں اختلاف رکھتے ہیں ، مگر برصغیر کے علماء میں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں۔
مگر امت کے اکابر علمی طو رپر اپنے مفتیوں کی مخالفت کرتے ہیں،ان کے ذہنوں میں کیمرے کے فوٹو کی کوئی خاص قباحت نہیں رہی ، یہ ایک بڑا المیہ ہے ، میں ہمیشہ اکابرین سے عرض کرتا ہوں کہ اگر مسئلہ بد ل گیا ہے او رکیمرے کا فوٹو جائز ہوگیا ہے تو پہلے دارالافتاؤں سے کہو کہ وہ جواز کا فتویٰ دیں، پھر فوٹو کھنچواؤ، موجودہ صورت دین کی تضحیک کا سبب ہے، عوام کہتے ہیں کہ لوجی ! مفتی صاحبان یہ فتوی دیتے ہیں او ر”حضرت جیوں“ کا یہ عمل ہے اور جب ایک مسئلہ میں عوام کے ذہنوں سے دین کی قدر ومنزلت ختم ہو جائے گی تو دین کے دوسرے شعبوں کا بھی یہی حال ہو گا۔
بلکہ بعض تجارت پیشہ ناعاقبت اندیشوں نے اکابرین کے فوٹوؤں کی تجارت شروع کر دی ہے، یہاں حضرت تھانوی ، حضرت مدنی ، حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی اور دیگر بہت سے بزرگوں کے فوٹو دھڑلے سے بک رہے ہیں، اس کا انجام کیا ہو گا؟ اس کااندازہ ہر شخص کرسکتا ہے، اس لیے اکابرین سے میری گزارش ہے کہ خدا را دین پر رحم کریں، اگر ان کے دل میں دین کی کوئی قدر نہیں ہے تو عوام کو تباہ نہ کریں ، والله یھدی السبیل․
املاہ سعید احمد عفا الله عنہ پالن پوری، خادم دارالعلوم دیوبند1428/5/25ھ
اصاب من اجاب: محمد امین پالن پوری، خادم دارالعلوم دیوبند، یکم جمادی الاخریٰ1428ھ
*دار الافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ:*
"ڈیجیٹل تصویر اور ویڈیو سے متعلق ہمارے ادارے (جامعہ علوم اسلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، کراچی) کا فتویٰ یہ ہی ہے کہ یہ تصویر ہے اور جس طرح کاغذ پر بنی ہوئی جان دار کی تصویر حرام ہے، اسی طرح یہ بھی حرام ہے۔
ڈیجیٹل تصویر کے مجوزین حضرات کے پاس اپنے قول کے دلائل ضرور ہوں گے، لیکن ہمیں ان سے اتفاق نہیں ہے؛ اس لیے کہ جان دار کی تصویر کی حرمت سے متعلق نصوص عام ہیں، نیز ہمارے اکابر نے جان دار کی تصویر سازی کو مطلقًا ناجائز قرار دیا ہے، خواہ تصویر بنانے کے لیے کوئی آلہ استعمال کیا جائے، اور قریب زمانے تک برصغیر کے اہلِ حق علماء کا تقریبًا اس پر اتفاق رہا ہے، بہرحال اگر اس مسئلے میں اہلِ علم کی آراء کا اختلاف معتبر مانا جائے تو بھی جان دار کی ڈیجیٹل تصویر کے ناجائز ہونے کو ہی ترجیح حاصل ہوگی، اس لیے کہ جس مسئلے میں جائز و ناجائز کا اختلاف ہو، وہاں ترجیح حرمت کو حاصل ہوتی ہے۔ آپ نے سوال میں جس حدیثِ مبارک کا مفہوم ذکر کیا ہے، اس سے بھی علماءِ کرام نے یہی اصول مستنبط کیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جان دار کی تصویر خواہ ہاتھ سے کاغذ یا کسی چیز پر بنائی جائے یا کیمرے کے ذریعے بنائی جائے، یا ڈیجیٹل کیمرے سے جان دار کی ویڈیو بنائی جائے، بہرصورت ناجائز ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے، خصوصًا اہلِ علم کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔"
*مولانا یوسف لدھیانوی شہید کا فتویٰ:*
”تصویر اور سی ڈی کے شرعی احکام“ نامی رسالہ( مؤلفہ مفتی احسان الله شائق صاحب، مفتی جامعة الرشید کراچی) میں حضرت مولانا محمدیوسف شہید لدھیانوی کا ایک فتویٰ نقل کیا ہے، جس میں حضرت نے لکھا ہے کہ:
” ٹی وی اور ویڈیو فلم کا کیمرہ جو تصویریں لیتا ہے وہ اگرچہ غیر مرئی ہیں، لیکن تصویر بہرحال محفوظ ہے او راس کو ٹی وی پر دیکھا جاسکتا ہے ، اس کو تصویر کے حکم سے خارج نہیں کیا جاسکتا، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہاتھ سے تصویر بنانے کے فرسودہ نظام کے بجائے سائنسی ترقی نے تصویر سازی کا ایک دقیق طریقہ ایجاد کیا ہے، لیکن جب شارع نے تصویر کو حرام قرار دیا ہے تو تصویر سازی کا خواہ کیسا ہی طریقہ ایجاد کر لیا جائے، تصویر تو حرام ہی رہے گی۔“ (ص:94)
*مفتی رشید احمد صاحب بانی جامعة الرشید کراچی اسی مسئلہ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:*
” اس کو عکس کہنا بھی صحیح نہیں ، اس لیے کہ عکس اصل کے تابع ہوتا ہے او ریہاں اصل کی موت کے بعد بھی اس کی تصویر باقی رہتی ہے ۔“ ( احسن الفتاوی :89/9)
ایک دوسرے مقام پر اسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” تصویر او رعکس دو بالکل متضاد چیزیں ہیں: تصویر کسی چیز کا پائیدار او رمحفوظ نقش ہوتا ہے، عکس ناپائیدار اور قتی نقش ہوتا ہے ، اصل کے غائب ہوتے ہی اس کا عکس بھی غائب ہو جاتا ہے، ویڈیو کے فیتہ میں تصویر ہوتی ہے ، جب چاہیں جتنی بار چاہیں ٹی وی اسکرین پر اس کا نظارہ کر لیں اور یہ تصویر تابعِ اصل نہیں ، بلکہ اس سے لاتعلق اور بے نیاز ہے ، کتنے لوگ ہیں جومرکھپ گئے، دنیا میں ان کا نام ونشان نہیں، مگر ان کی متحرک تصاویر ویڈیو کیسٹ میں محفوظ ہیں، ایسی تصویر کو کوئی بھی پاگل عکس نہیں کہتا، صرف اتنی سی بات کو لے کر کہ ویڈیو کے فیتہ میں ہمیں تصویر نظر نہیں آتی، تصویر کے وجود کا انکار کر دینا کھلا مغالطہ ہے۔“ (احسن الفتاوی:302/8)
مولانا مفتی رشید احمد صاحب اسی غیر مرئی شکل میں محفوظ عکس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں: ”ویڈیو کیمرہ سے کسی بھی تقریب کی منظر کشی کا عمل تصویر سازی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے ، جیسے قدیم زمانہ میں تصویر ہاتھ سے بنائی جاتی تھی، پھر کیمرہ کی ایجاد نے اس قدیم طریقہ میں ترقی کی اور تصویر ہاتھ کے بجائے مشین سے بننے لگی، جو زیادہ سہل اور دیر پا ہوتی ہے، اب اس عمل میں نئی نئی سائنسی ایجادات نے مزید ترقی کی او رجدت پیدا کی اور جامد وساکن تصویر کی طرح اب چلتی پھرتی دوڑتی بھاگتی صورت کو بھی محفوظ کیاجانے لگا، یہ کہنا صحیح نہیں کہ اس کو قرار وبقا نہیں، اگر اس کو بقا نہیں تو وہ ٹی وی اسکرین پر چمکتی دمکتی اوراچھلتی کودتی نظر آنے والی چیز کیا ہوتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ یہ وہی تصویر ہے، جو کسی وقت لے کر محفوظ کی گئی تھی، صرف اتنی سی بات ہے کہ کیسٹ کی پٹی میں ایسی فنی جدت سے کام لیا گیا ہے کہ دیکھنے میں پٹی خالی نظر آتی ہے،لیکن ظاہر ہے کہ وہ تصویر معدوم نہیں ہوتی، ورنہ وی سی آر پر دوبارہ کیسے ظاہر ہو سکتی ہے؟۔“ (احسن الفتاوی:88/9)
*شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی رائے:*
فرمایا کہ میری تحقیق کی آڑ لے کر لوگوں نے مسجدوں میں کیمرے گھسا دئیے حالانکہ میں نے کبھی مساجد میں اس طرح کی چیزوں کی اجازت نہیں دی بلکہ ضیاءالحق مرحوم دارالعلوم کراچی ایک تقریب میں آئے تھے تقریر بھی کی۔ یہ دنیا کا منفرد واقعہ ہے کہ کسی ملک کا صدر ایک تقریب میں شریک ہوا۔ تقریر بھی کی لیکن وہاں کیمرے کا فلش تک نہ چلا اور میں نے یہ کیمرہ اس احاطے میں داخل ہونے نہیں دیا حالانکہ اس وقت بھی میری تحقیق یہی تھی کہ ڈیجیٹل تصویر ممنوع تصویر نہیں لیکن آج ہمارے تلامذہ ہمارا نام لے کر مساجد و مدارس میں یہ کام کر رہے ہیں جب کہ علماء کی بڑی جماعت اس کے حرام ہونے کی قائل ہے لہذا احتیاط بہرحال بچنے میں ہے۔ (منقول)
*دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی کا فتویٰ:*
"واضح رہے کہ جمہور اہل علم کے ہاں ڈیجیٹل مناظر تصویر کے حکم میں ہیں اور انہیں عکس قرار دینا حقیقت کے خلاف ہے، تصویر اور عکس میں مابہ الفرق’صنعت“ ہے، عکس وہ ہوتا ہے کہ جس میں صنعت انسانی کا کوئی دخل نہیں ہوتا جب کہ تصویر میں صنعت انسانی کار فرما ہوتی ہے، حدیث مبارک"إن الذین یصنعون ھذہ الصور یعذبون یوم القیامة" میں صراحتاً ‘صنعت’ کو بنیاد بنا کر عذاب کا ترتب کیا گیا ہے۔
اب اگر دیکھا جائے تو ڈیجیٹل مناظر کو عکس قرار دینا کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ باوجودیکہ اس میں صنعت انسانی اسی طرح پائی جاتی ہے جس طرح پرنٹ تصویر میں صنعت انسانی پائی جاتی ہے، جب کہ آئینہ میں بننے والا عکس قدرتی ہے، اس میں صنعت انسانی کا کوئی دخل نہیں ہے۔
لہٰذا ہمارے نزدیک اور جمہور اہل علم کے نزدیک موبائل کے ذریعے جاندار کی تصویر یا ویڈیو بنانا اسی طرح ناجائز ہے، جس طرح برش کے ذریعے تصویر کا بنانا ناجائز ہے اور جو وعیدیں احادیث مبارکہ میں تصویر پر وارد ہوئی ہیں، وہ ڈیجیٹل تصویر پر بھی صادق آتی ہیں۔ فقط واللہ اعلم بالصواب"
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اکثر علماء و مفتیان کرام نے جاندار کی تصویر اور ویڈیو بنانے اور بنوانے کو حرام اور ناجائز کہا ہے،خواہ کسی بھی آلہ، کیمرہ یا موبائل وغیرہ سے بنائی جائے۔ اور ایسے کام کو پیشہ بنانا بھی جائز نہیں ہے جس میں جان دار کی تصاویر اور ویڈیو وغیرہ بنائی جاتی ہوں یا ان کی ایڈیٹنگ کی جاتی ہو۔ اور ضرورتِ شدیدہ کے موقع پر انسانی تصویر (مثلًا: پاسپورٹ یا شناختی کارڈ وغیرہ کی تصویر) بنوانے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن ملحوظ رہے کہ مجبوری اور ضرورت کی بنا پر جو تصویریں بنوائی جاتی ہیں اس سے تصویر کشی کی حرمت ختم نہیں ہوجاتی، البتہ مجبوری میں تصویر بنوانے والے پر گناہ نہیں ہوتا، بلکہ گناہ ایسا قانون بنانے والوں پر ہوتا ہے۔
بہرحال اگر اس مسئلے میں اہلِ علم کی آراء کا اختلاف معتبر مانا جائے تو بھی جان دار کی ڈیجیٹل تصویر کے ناجائز ہونے کو ہی ترجیح حاصل ہوگی، اس لیے کہ جس مسئلے میں جائز و ناجائز کا اختلاف ہو، وہاں ترجیح حرمت کو حاصل ہوتی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں