بوقت مجبوری نماز باجماعت میں نمازيوں کے درميان فاصلہ رکھنا
بوقت مجبوری صفوں میں، نمازیوں کے درمیان فاصلہ رکھنا جائز ہے
رسول اللہ ﷺ نے نماز با جماعت میں صفوں کو سیدھا کرنے، صفوں کے درمیان خالی جگہ کو پر کرنے اور مل مل کر کھڑے ہونے کا تاکیدی حکم دیا ہے۔
بخاری شریف میں حضرانس رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں :
«أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي، وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ، وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ» (صحیح بخاری، رقم 725) ترجمہ : اپنی صفوں کو درست کرو، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں، حضرت انس فرماتے ہیں کہ : ہم میں سے ہر ایک اپنا کندھا دوسرے کے کندھے سے اور قدم قدم سے ملاکر کھڑا ہوتا تھا ۔
نوٹ : اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہر نمازی شروع سے اخیر تک دائیں بائیں کھڑے نمازیوں کے ٹخنوں سے ٹخنے ملاکر رکھے، بلکہ شارحین حدیث کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ صفوں کی درستگی اور درمیانی خلا کو پر کرنے کا شدت سے اہتمام کیا جائے، اس طرح کہ ہر آدمی کے ٹخنے برابر والے شخص کے ٹخنے کے بالکل سیدھ میں آجائیں ۔ (فتح الباری شرح بخاری 2 : 268، اعلاء السنن 4 : 336، ط : بیروت)
اور ایک دوسری حدیث میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے نقل کرتے ہیں :
"سَوُّوا صُفُوفَكُمْ، وَحَاذُوا بَيْنَ مَنَاكِبِكُمْ، وَلِينُوا فِي أَيْدِي إِخْوَانِكُمْ، وَسُدُّوا الْخَلَلَ؛ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ فِيمَا بَيْنَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْحَذَفِ " يَعْنِي: أَوْلَادَ الضَّأْنِ الصِّغَارَ۔ (مسند احمد 36: 597، رقم 22263، ط: الرسالۃ) ترجمہ : اپنی صفوں کو سیدھا رکھو، اپنے کندھوں کو برابر(ایک لائن میں) رکھو، اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم رہا کرو (یعنی اگر صفوں کی درستگی کے لیے کوئی ادھر ادھر کرنا چاہے، تو اکڑنے کے بجائے اپنے اعضاء نرم کرلو)، اور صفوں کے درمیان خالی جگہ کو پر کرو، اس لیے کہ شیطان (ان خالی جگہوں میں) تمہارے درمیان ایسے گھس جاتا ہے جیسے بھیڑ کے چھوٹے چھوٹے بچے ۔
اور ایک دوسری حدیث میں حضرت نعمان بشیر رضی اللہ عنہ آپ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں : «عبادَ اللہ! لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ، أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ» (صحیح مسلم، رقم 436، صحیح بخاری رقم 717) ترجمہ : اللہ کے بندو! اپنی صفیں سیدھی کرو، ورنہ اللہ تعالی تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف ڈال دیں گے )
نیز ایک حدیث میں حضور ﷺ نے صفوں کے خلا کو پر کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا : «مَنْ سَدَّ فُرْجَةً فِي صَفٍّ رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً، أَوْ بَنَى لَهُ بِهَا بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ» (مصنف ابن ابي شیبۃ رقم 3824، 1 : 333، ط : الریاض) ترجمہ : جو شخص صف میں خالی جکھ کو پر کرے، تو اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند فرمائیں گے، یا اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائیں گے ۔
اسی وجہ سے حضرات فقہاء نے عام حالات میں صفوں کے درمیان خالی جگہ چھوڑنے کو مکروہ تحریمی قرار دیا ہے۔ فتاوی شامی میں ہے :
’’ولو صلى على رفوف المسجد إن وجد في صحنه مكانا كره كقيامہ في صف خلف صف فيه فرجة. قلت: وبالكراهة أيضا صرح الشافعية. (قوله كقيامه في صف إلخ) هل الكراهة فيه تنزيهية أو تحريمية، ويرشد إلى الثاني قوله - صلى الله عليه وسلم - "ومن قطعه قطعه الله " ط. ( رد المحتار، باب الامامۃ 1 : 568، ط : دار الفکر بیروت)
البتہ یہ بھی فقہ کا طے شدہ ضابطہ ہے: ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ ( الٲشباہ و النظائر1 : 251، ط : کراچی)، ضرورت اور مجبوری ممنوع اور ناجائز چیزوں کو جائز بنادیتی ہے؛ مثلاً عام حالات میں مردار اور خنزیر کھانا حرام ہے؛ لیکن اگر بھوک کی وجہ سے مرنے کا خوف ہو، تو اس وقت اتنا مردار اور خنزیر کا گوشت کھانے کی رخصت ہے جس سے آدمی زندہ رہ سکے۔ اس لیے اگرچہ عام حالات میں صفوں کے درمیان خالی جگہ چھوڑنا مکروہ ہے ؛ لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ موجودہ حالات میں، چوں کہ ہمارے ملک میں حکومت کی جانب سے فاصلہ رکھنے کو لازمی قرار دیا گیا ہے، نیز مل کر کھڑے ہونے کی صورت میں بیماری پیدا ہونے کے خوف کے ساتھ، حکومتی احکام کی خلاف ورزی کی بناء پر، پرشاسن کی جانب سے پریشانی، نقصان اور تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہے، اس لیے جب تک یہ صورت حال رہے ضرورت اور مجبوری کے پیش نظر نماز با جماعت میں نمازیوں کے درمیان دو تین فٹ کا فاصلہ رکھنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔
تاہم اگر کسی ملک میں حکومت کی جانب سے فاصلہ رکھنے کو لازمی قرار نہ دیا گیا ہو، تو وہاں فاصلہ رکھنے سے اجتناب کیا جائے۔
فقط و اللہ تعالی ٲعلم
حررہ : محمد جاوید قاسمي بالوي
خادم حدیث و افتاء
جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت، ضلع شاملی
16/ 10/ 1441ھ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں