حضرت مولانا بشير احمد صاحب مفتاحیؒ

 

حضرت مولانا بشیر احمد صاحب مفتاحی نور اللہ مرقدہ

بہ قلم:  محمد جاوید قاسمی بالوی

استاذ حدیث جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت

    ضلع شاملی اور اس کے اطراف کا علاقہ اس سرزمین سے تعلق رکھتا ہے جس کو ہندوستان کے دو مشہور دریا ’’گنگا‘‘ اور ’’جمنا‘‘ کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے ’’دوآبہ ‘‘ کا علاقہ کہا جاتا ہے، اور جو ہمیشہ علماء، صلحاء، صوفیاء، فقہاء، محدثین، مفکرین، مصلحین اوربزرگانِ دین کی سرزمین رہی ہے، حضرت مفتی الٰہی بخش کاندھلوی، حضرت میانجی نور محمد صاحب جھنجھانوی، حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی، حضرت مولانا شیخ محمد صاحب محدث تھانوی، حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب کیرانوی، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی، بانی تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب، مفسر قرآن حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی، حضرت مولانا وحید الزمان صاحب کیرانوی، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب، حضرت مولانا محمد کامل صاحب اسی خطہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت مولانا مفتی بشیراحمد صاحب مفتاحی رحمہ اللہ کا تعلق بھی اسی بافیض و رجال خیز سرزمین کے ایک گاؤں ’’بدھوپورہ‘‘ سے تھا۔

نام ونسب و ولادت :

    مولانا مفتی بشیر احمد بن حاجی سبحان بن مرداد، اپنے آبائی وطن گاؤں بدھوپورہ نزد قصبہ جھنجھانہ ضلع شاملی (یو۔پی) میں ۱۹۳۴ء کے کسی مہینہ میں پیدا ہوئے۔

 تعلیم :

    ابتدائی تعلیم درجہ ناظرہ تک دار العلوم حسینیہ پاؤٹی کلاں ضلع شاملی میں حاصل کی، اس کے بعد۱۹۴۷ء کے اوئل میں علاقہ کے مشہور و معروف ادارہ مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد پہنچ کر درجۂ حفظ میں داخلہ لیا،اللہ تعالی نے آپ کو نہایت عمدہ ذہن اور مثالی قوت حافظ سے نوازا تھا، چناں چہ ۱۶؍ ماہ کے قلیل عرصہ میں مکمل قرآن کریم اپنے سینہ میں محفوظ کرلیا،اس وقت آپ کی عمر چودہ سال تھی۔

    تکمیل حفظ قرآن کے بعد مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد کے شعبہ فارسی و عربی میں داخل ہوکر درس نظامی شروع کیا، حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحب نور اللہ مرقدہ سابق صدر وفاق المدارس پاکستان سے میزان و منشعب ، نحومیر اور شرح مائۃ عامل پڑھی،حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحب کے پاکستان چلے جانے کے بعد، درس نظامی کی اکثر کتابیں :ہدایہ ، جلالین شریف وغیرہ حضرت علامہ رفیق احمد صاحب سے پڑھیں، مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ صاحب جلال آبادی نور اللہ مرقدہ سے بخاری شریف جلد اول اور حضرت مولانا مفتی سعید احمد لکھنوی سے بخاری شریف جلد ثانی اور ترمذی شریف پڑھی۔فراغت سے پہلے دوران تعلیم ۱۹۵۵ء میں اتنے شدیدبیمار ہوگئے کہ تقریباً ۲۰؍ دن موت و زیست کے درمیان بیہوشی کی حالت میں رہے، بیماری کا سلسلہ کافی دن تک چلا جس کی وجہ سے جسم میں کافی کمزوری آگئی تھی،اس لیے درمیان میں کچھ عرصہ تعلیم کا سلسلہ رکا رہا، اور اس طرح ۱۹۵۹ء میں دورۂ حدیث شریف سے فارغ ہوئے، اس کے بعد مزید دو سال ۱۹۶۱ء تک مدرسہ مفتاح العلوم میں رہ کر افتاء کیا اور فنون کی کتابیں پڑھ کر مختلف علوم وفنون میں مہارت حاصل کی۔

اساتذہ :

    آپ کے اساتذہ میں مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ صاحب جلال آبادی ، حضرت مولانا مفتی سعید احمد لکھنوی ، حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحب ، علامہ رفیق احمدصاحب بھینسانوی اور مولانا سید عابد حسین صاحب جلال آبادی (معروف بہ چھوٹے مولوی صاحب) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

تدریس :

    تحصیل علم سے فراغت کے بعد، اپنے استاذ محترم حضرت علامہ رفیق احمد صاحب کے مشورہ سے اپنے وطن گاؤں بدھوپورہ کے قریب ، مدرسہ اشرف العلوم موضع گوگوان ضلع شاملی (یو۔پی) سے اپنے طویل تدریسی سفرکا آغاز کیا،اور اپنی شب و روز کی جہد مسلسل ،کد و کاوش، ذاتی لگن و دلچسپی سے مدرسہ اشرف العلوم گوگوان میں درس نظامی کی تعلیم کی بنیاد ڈالی،اور بہت جلد یہاں آپ کی زیر نگرانی عربی چہارم (شرح جامی ) تک کی کامیاب تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا،مدرسہ اور اس کے تعلیمی نظام سے محبت، لگاؤ اورتعلق اس درجہ بڑھا کہ اپنے آبائی گاؤں بدھوپورہ کی سکونت چھوڑ کر ، ہمیشہ کے لیے گوگوان ہی کو اپنا وطن بنالیا،اور مسلسل چودہ سال یہاںمدرسہ کے انتظام و انصرام، درس و تدریس،خدمت دین اور اشاعت اسلام میں مشغول رہے۔

     اس کے بعد مدرسہ نور محمدیہ جھنجھانہ میں تشریف لے گئے، ابھی وہاں درس دیتے ہوئے ایک ہی سال ہوا تھا کہ حضرت مولانا محمد کامل صاحب رحمہ اللہ کی طرف سے، آپ کو جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت آنے کی دعوت دی گئی،  جب اصرار زیادہ بڑھا تو جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت تشریف لے آئے، اور وہاں مسلسل پانچ سال جلالین شریف وغیرہ مختلف کتابیں پڑھاکر تشنگان علوم دین کو سیراب کرتے رہے۔

    بعد ازاں ایک سال موضع بھورا میں پڑھانے کے بعد، تقریباً۱۹۸۲ء میں مفکر ملت حضرت مولانا زاہد حسن صاحب ابراہیمی نور اللہ مرقدہ کے ایماء پر موضع دبھیڑی خورد وسنہٹی تشریف لے گئے، اور وہاں مدرسہ حسینیہ سبیل الہدی کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی، پھر گرمی دیکھی نہ سردی، صحت کی پروا کی نہ بیماری کو خاطر میں لائے،ہر طرح کے حالات میں شب وروز مدرسہ کی تعمیر و ترقی اورطلبہ کی تعلیم و تربیت کی فکرکو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ، اور اپنی زندگی کے مسلسل ۳۳؍ سال اس طرح گذرادئیے کہ رات دن بس ایک ہی سودا سر میں سمایا رہتا کہ مدرسہ تعلیمی، تعمیری ، تحویلی ہر اعتبار سے ترقیات کی منازل طے کرکے اوج کمال پر پہنچ جائے،چناں چہ آپ کی آہ سحر گاہی، دعائے نیم شبی، جہد مسلسل اور انتھک محنت رنگ لائی اور مدرسہ مکتب سے ترقی کرکے ایک بڑے ادارہ کی شکل اختیار کرگیا، جس میں دینیات، حفظ و ناظرہ اور فارسی کے ساتھ ، عربی سوم تک معقول تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔

تلامذہ :

    آپ کے طویل تدریسی دورانیہ میں جن طالبانِ علوم نبویہ نے آپ سے کسب فیض کیا اور اپنی علمی پیاس بجھا کر سیرابی حاصل کی ان کی ایک بڑی تعداد ہے جن میں حضرت مولانا محمد عاقل صاحب مہتمم جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت، حضرت مولانا محمد عمر صاحب مہتمم مدرسہ ضیاء القرآن ایم پی والی مسجد کیرانہ، مولانا رکن الدین صاحب بھورا، مولانا مظاہر حسن صاحب گوگوانی، حافظ محمد اسرائیل صاحب،قاری محمد یامین صاحبؒکرتانوی، آپ کے صاحبزادے و جانشین جناب مولانا محمد عرفان صاحب قاسمی اور مولانا مفتی محمد طیب صاحب قاسمی گوگوانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

 بیعت و ارشاد :

    علم حاصل کرنے کا پورا فائدہ اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب کہ آدمی اس کے مطابق عمل کرے، پوری زندگی قرآن وسنت کی رہنمائی میں گذارے، اسلامی تعلیمات کو نصب العین بناکر اپنے اعمال، اخلاق، معاشرت ، معاملات کو درست کرے اور اپنے ہر قول وفعل، نقل و حرکت،رفتار و گفتار اورنشست وبرخاست میں ’’القرآن‘‘ اور ’’سنن نبویہ‘‘ کو اپنا اسوہ بنائے، اور یہ تمام صفات انسان کے اندر اسی وقت پیدا ہوتی ہیں جب کہ اسے کسی شیخ کامل، مرشد برحق اور حق پرست و حق گو ،صاحب دل اور صاحب نسبت بزرگ کی صحبت ، رفاقت ، معیت اور رہنمائی حاصل ہو۔ حضرت مولانا بشیر احمد صاحب اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ اور باخبر تھے، چناں چہ آپ علوم ظاہری کی تحصیل کے بعد اپنے استاذ محترم مسیح الامت حضرت مولانا شاہ مسیح اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ خلیفہ اجل حضرت حکیم الامت تھانوی سے اصلاحی تعلق قائم کرکے تصوف و سلوک کی منازل طے کرنے لگے؛ لیکن ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ حضرت جلال آبادی دنیا سے تشریف لے گئے، اس کے بعد آپ نے حضرت مولانا حکیم عبد اللہ صاحب مغیثی دامت برکاتہم کی طرف رجوع کیا؛ چوں کہ آپ حضرت جلال آبادی کی زیر نگرانی تصوف و سلوک کی تقریباً تمام منازل طے کرچکے تھے، اس لیے بہت جلد حضرت مولانا حکیم عبد اللہ مغیثی صاحب کی طرف سے اجازت و خلافت سے نوازے گئے۔ اور اپنے شیخ کے حکم پر مدرسہ ہی میں خانقاہ قائم کرکے ، ماہانہ اصلاحی مجالس کا سلسلہ شروع فرمادیا، جن میں ہر ماہ اچھی خاصی تعداد میں آپ کے مریدین و متوسلین اور قرب وجوار کے لوگ شریک ہوکر اپنے سینوں کو نور معرفت سے منور کرتے رہے۔

جمعیۃ علماء ہند سے وابستگی :

    مسلمانانِ ہند کی قائدانہ صلاحیت کی حامل اہم جماعت ’’جمعیۃ علمائے ہند‘‘ اور اُس کے مقاصد سے بھی آپ لگاؤ رکھتے تھے۔ علاقائی سطح پر جمعیۃ علماء کی سبھی تحریکات میں آپ حصہ لیتے رہے۔

آپ کا خاص وصف :

    آپ کو اللہ تعالی نے علم ظاہری کے ساتھ باطنی کمالات سے بھی خوب نوازا تھا، امانت و دیانت، تقوی و پرہیزگاری، خشیت و خوف الٰہی، صبر و شکر ،خلوص وللہیت میں آپ اسلاف کا نمونہ تھے۔ خوش اخلاقی،عاجزی و انکساری، تواضع و کسر نفسی، گوشہ نشینی و خلوت پسندی،ہمہ وقت ذکر الٰہی، معمولات کی مثالی پابندی اور احکام شریعت کی مکمل پاسداری، بے باکی وحق گوئی وہ اوصاف ہیں جو آپ کو دیگر ہم عصروں سے ممتاز کرتے ہیں۔

    تقریباً سات سال پہلے حضرت کے ساتھ تبلیغی جماعت میں کچھ وقت لگانے کی سعادت حاصل ہوئی، حضرت ہی ہمارے امیر جماعت تھے، مولانا محمد عمر صاحب اور کیرانہ کے کچھ یگر علماء بھی ساتھ تھے، اس وقت حضرت کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، کئی دن حضرت کو بخار رہا؛ لیکن بخار کی شدت اور جسمانی کمزوری کے باوجود صلاۃ الاوابین، تہجد ، اشراق ، چاشت اور معمولات یومیہ کا سلسلہ برابر جاری رہا، ان میں کسی قسم کا کوئی تغیر نہیں آیا، معمولات کی ایسی پابندی میں نے حضرت مولانا موصوف اور اپنے والد محترم کے علاوہ کسی اور کے یہاں نہیں دیکھی۔ایک روز میں نے مشورہ میں حضرت کے سامنے یہ بات رکھی کہ اگر ہمارے تمام رفقاء نماز کی اکیاون سنتیں یاد کرلیں اور روزانہ تھوڑی دیر ان کی عملی مشق ہوجایا کرے تو اس سے بڑا فائدہ ہوگا اور ہماری نماز سنت کے مطابق ہوجائے گی، حضرت نے اس کو پسند فرمایا اورنماز کی عملی مشق کی نگرانی پر مجھے مامور کردیا، میری حیرت کی اس وقت انتہاء نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ ایک روز میں نماز کی عملی مشق کرارہا تھا، تو حضرت نے فرمایا : کہ بھائی میری نماز بھی درست کراؤ، اور میرا رکوع دیکھو صحیح ہورہا ہے یا نہیں؟ اللہ رے ! اس درجہ تواضع و عاجزی ! کہ اپنے چھوٹوں سے اپنی نماز کی نگرانی اور تصحیح کا حکم دیا جارہا ہے۔

سفر آخرت :

    ۵ رجب المرجب ۱۴۳۹ھ مطابق ۲۳؍ مارچ ۲۰۱۸ء بروز جمعہ کو معمول کے مطابق صبح صادق سے پہلے اٹھے، وضو کرکے تہجد کی نماز پڑھنے کے بعد قرآن شریف کی تلاوت کی، فجر کی سنتیں بھی پڑھیں،اس کے بعد اچانک سینہ میں درد شروع ہوگیا اور طبیعت بگڑتی چلی گئی ، اور طلوع آفتاب سے کچھ دیر قبل اپنی عمر عزیز کے ۸۴؍ سال پورے کرکے ، ذکر کرتے ہوئے ، حرکت قلب بند ہوجانے کے سبب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے اعزہ و اقرباء اور مریدین و متوسلین کو روتا اور بلکتا ہوا چھوڑ کراس طرح اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے کہ کوئی نماز چھوٹی اور نہ قضاء ہوئی۔ إنا للہ و إنا إلیہ رجعون  اسی دن ظہر کے بعد ساڑھے تین مدرسہ اشرف العلوم گوگوان کے صحن میں ہزاروں علماء ، صلحاء اور عام مسلمانوں کے مجمع میں نماز جنازہ ادا کی گئی ہے، اور ’’بدھوپورہ‘‘ جانے والی سڑک کے کنارے عام قبرستان میں یہ تقوی و طہارت کا پیکر ہمیشہ کے لیے آسودۂ خواب ہوگیا۔

    اللہ تعالی حضرت کی مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے ، اعلی علیین میں جگہ عنایت فرمائے اور ہم سب کو آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حزب البحر مع طريق زکوۃ

زندہ مرغی تول کر بيچنے کا حکم

مفتی قاسم جلال آبادی