حضرت مولانا مفتی محمد قربان صاحب ابراھيمی
حضرت مولانا مفتی محمد قربان صاحب ؒ
بہ قلم: مفتی محمد جاوید قاسمی بالوی
استاذحدیث جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت
ضلع سہارنپور اور اس کے اطراف کا علاقہ اس
سرزمین سے تعلق رکھتا ہے جس کو ہندوستان کے دو مشہور دریا ’’گنگا‘‘ اور ’’جمنا‘‘
کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے ’’دوآبہ ‘‘ کا علاقہ کہا جاتا ہے، اور جو ہمیشہ
علماء، صلحاء، فقہاء، محدثین، مفکرین، مصلحین اوربزرگانِ دین کی سرزمین رہی ہے۔ مولانا احمد علی صاحب محدث سہارنپوری محشی صحاح ستہ، استاذ الکل مولانا مملوک علی
صاحب نانوتوی، بانئ دار العلوم دیوبند حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی، فقیہ النفس مولانا رشید
احمد صاحب گنگوہی، شیخ الہند مولانامحمود حسن صاحب دیوبندی، محدث کبیر مولانا
خلیل احمد صاحب انبہٹوی اور مفکر ملت مولانا زاہد حسن صاحب ابراہیمی اسی خطہ میں
پیدا ہوئے۔ ہمارے مخدوم و محترم حضرت مولانا مفتی محمد قربان صاحب اسعدی نور اللہ
مرقدہ کا تعلق بھی اسی مبارک سرزمین کی ایک بستی ’’ابراہیمی‘‘ سے تھا، راقم سطور
کو حضرت مولانا قد سرہ سے زیادہ ملاقات و استفادہ کا موقع تو نہ مل سکا؛ البتہ اپنے دورِ
طالب علمی میں ایک مرتبہ حضرت مفتی صاحب سے ملاقات کا شرف ضرور حاصل ہوا، جس کی
حلاوت اور حسین یادیں آج بھی دل و دماغ کے نہاں خانہ میں نمایاں طور پر محسوس ہوتی
ہیں۔
۲۰۰۳ء کا سن تھا، بندہ کا دورۂ حدیث شریف کا
سال مکمل ہوگیا تھا، رمضان شروع ہونے میں کچھ ہی دن باقی تھے، شعبان کی کسی تاریخ
میں ہمارا تین نفری قافلہ قرآن کریم سنانے کی غرض سے ہندوستان کے مشہور شہر
بنگلور میں وارد ہوا، ہمارے امیر سفر مولانا شرافت صاحب خواج پوری (جو اس علاقہ
میں بارہا آچکے تھے) کے ذریعہ معلوم ہوا کہ یہاں قریب ہی میں شہر ٹمکور سے متصل
عملہ پور میں ایک دینی مدرسہ ہے ، جس کے بانی و روح رواں ہمارے ہی علاقہ کے ایک
بڑے بافیض عالم جناب مولانا مفتی محمد قربان صاحب ہیں، یہ سن کر دل میں مدرسہ
دیکھنے اور حضرت مفتی صاحب موصوف سے ملاقات کا داعیہ پیدا ہوا، غالباً وہ مغرب اور
عشاء کے درمیان کا وقت تھا جب ہم ’’جامعہ حسینیہ عملہ پور‘‘ کی وسیع و عریض
چہاردیواری میں داخل ہوئے، ہم مدرسہ اور مدرسہ والوں کے لیے اجنبی تھے، کسی سے
کوئی شناسائی تھی اور نہ سابقہ ملاقات؛ لیکن جیسے ہی ہم مہمان خانہ میں پہنچے،
ہمارے ساتھ اکرام ، حسن اخلاق اور فیاضی کا جو معاملہ کیا گیا اس کے بعد ہمیں یہاں
کسی طرح کی اجنبیت کا احساس نہیں رہا،کھانے اور نماز سے فارغ ہوکر آرام کے لیے
لیٹ گئے، حضرت مفتی صاحب غالباً اس وقت سفر پر تھے۔یہاں آکر دیکھا کہ علاقۂ
سہارنپور و مظفر نگر کے حفاظ و علماء کی
ایک اچھی خاصی تعداد مدرسہ میں موجود تھی، جو رمضان میں قرآن شریف سنانے یا تفسیر
کرنے کی غرض سے آئے ہوئے تھے، ان سب کے قیام و طعام کا حضرت مفتی صاحب کی طرف سے
نہایت معقول بندوبست کیا گیا تھا،خوش اخلاقی ، وسعت ظرفی، دریا دلی اور مہمان
نوازی کی جو حسین فضا ہم نے یہاں دیکھی ، اس کی مثال دوسری جگہوں میں شاذ و نادر
ہی ملے گی۔ اگلے دن ظہر کے بعد حضرت مفتی صاحب قدس سرہ سے ملاقات ہوئی، علیک سلیک
کے بعدبڑی شفقت و محبت سے ملے،وطن پوچھا، آنے کی غرض معلوم کی،اگلے دن اپنے دولت
خانہ پر دو پہر کے کھانے کے لیے مدعو کیا، ایک نووارد اجنبی کے ساتھ یہ حسن اخلاق
اور خوش مزاجی کا برتاؤ،یہ اکرام و اعزاز، یہ محبت و شفقت ،’’اسوۂ رسول کریم‘‘
کی کامل اتباع، اخلاق نبوی کی مکمل پیروی اور سنت ِ نبوی پربھر پور عمل کی آئینہ
دار ہے۔ حضرت مفتی صاحب قدس سرہ سے ہماری یہی پہلی ملاقات بھی تھی اور یہی آخری
بھی؛ کیوں کہ اس کے بعد ہمیں دوبارہ اس علاقہ کے سفر کی نوبت نہیں آئی۔ حضرت مفتی
صاحب ، ایک باخدا، متقی پرہیز گار، خلیق و ملنسار،خدا ترس، سخی و فیاض اور مثالی
انسان تھے۔
نام ونسب :
مولانا مفتی محمد قربان صاحب بن وزیر محمد ۔
ولادت و تعلیم :
آپ ۶؍ستمبر۱۹۵۳ء کو اپنے آبائی وطن : موضع ابراہیمی،
پوسٹ سرساوہ ، ضلع سہارنپور (یو۔پی) میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم گاؤں ابراہیمی
کی جامع مسجد میں حاصل کی ،وہیں حافظ محبوب علی صاحب سے حفظ کی تکمیل کی ۔ اس کے
بعد مدرسہ سراج العلوم موضع دمجھیڑہ ضلع سہارنپور میں پہنچ کر فارسی سے عربی سوم
تک پڑھا ،پھر جامعہ مظاہر علوم سہارن پور تشریف لے گئے، اور وہاں مسلسل پانچ سال
رہ کر ۱۹۷۶ء میں دورۂ حدیث شریف سے فراغت حاصل
کی،پھر ادب و افتاء کی تکمیل کے لیے ازہر ہند دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے، اور
فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی نور اللہ مرقدہ مفتی اعظم دار
العلوم دیوبند کی زیر سرپرستی ۱۹۷۸ء میں
’’تکمیل افتاء‘‘ سے فارغ ہوئے۔
تدریس :
تکمیل افتاء سے فراغت کے بعد ’’جامع مسجد
بیکانیر‘‘ راجستھان میں بحیثیت امام تشریف لے گئے، امامت کے ساتھ درس وتدریس کا
سلسلہ بھی جاری رہا،وہاں تقریباً دیڑھ سال رہے،اس کے بعد جامعہ بدر العلوم گڑھی
دولت میں بحیثیت ’’مدرس عربی‘‘ تشریف لائے، اور پورے تین سال مختلف فنون کی متعدد
کتابیں بڑی عمدگی کے ساتھ پڑھائیں۔
جامعہ حسینیہ عملہ پور کا قیام :
جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت کے زمانۂ قیام
میں ، اپنے ایک شاگرد حافظ محمد علی کی تحریک و دعوت پر آپ پہلی مرتبہ ٹمکور
(کرناٹک) میں قرآن شریف سنانے کی غرض سے تشریف لے گئے،پورا ضلع ٹمکور اس وقت
جہالت و بدعت اور طرح طرح کی خرافات اور غیر شرعی رسومات کا مرکز بنا ہوا تھا،
حضرت مفتی صاحب نے تراویح میں قرآن شریف سنانے کے ساتھ ، عشاء کے بعد قرآن کریم
کی تفسیر شروع کردی، اللہ تعالی نے آپ کو حسن صورت کے ساتھ حسن صوت اور حسن سیرت
سے بھی خوب نوازا تھا، کچھ آپ کی دلکش آواز میںقرآن کریم کی تلاوت نے لوگوں کو
مسحور کیا اور کچھ آپ کے درسِ قرآن نے اپنا اثر دکھایا ، جیسے جیسے شب وروز
گذرتے گئے، آپ کی مقبولیت و محبوبیت میں اضافہ ہوتا گیا ، معتقدین و متوسلین کی
تعداد بڑھتی چلی گئی، آپ نے اپنے درسِ قرآن میں جہاں ایک طرف حکمت اور دور
اندیشی کے ساتھ بدعات و خرافات کی شناعت و قباحت بیان کرکے ان سے اجتناب اور سنت
نبوی اور تعلیماتِ الٰہی کی پیروی کی ترغیب دی، وہیں دوسری طرف دینی تعلیم کی
ضرورت و اہمیت اور اس کے فوائد پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی، جس کا لازمی اثر یہ
ہوا کہ لوگوں میں ایک دینی ادارہ قائم کرنے کا شوق پیدا ہوگیا، اس کے لیے ایک
کمیٹی تشکیل دی گئی، طے یہ ہوا کہ اس مقصد کے لیے حضرت مفتی صاحب اپنی سرپرستی میں
کسی عالم کو یہاں بھیج دیں گے؛ لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ مبدأفیاض نے اس
علاقہ کی رشد و ہدایت اور یہاں تعلیمی ادارہ کے قیام کے لیے حضرت مفتی صاحب ہی کی
ذات والا صفات کو منتخب کیا ہوا ہے، چناں چہ آپ کے وطن واپس آنے کے بعد کمیٹی کے
ارکان کی رائے بدلی اور انہوں نے باہمی مشورہ کے بعد یہ حتمی فیصلہ کرلیا کہ اس
کام کو حضرت مفتی صاحب ہی صحیح طور پر انجام دے سکتے ہیں، اس لیے انہی کو بلایا
جائے۔چناں چہ اہل ٹمکور کی فرمائش پر ۱۹۸۲ء میں
آپ مستقل قیام کے ارادے سے ٹمکور تشریف لے آئے، اور ۱۶؍ جون ۱۹۸۲ء بروز چہار شنبہ ٹمکور سے متصل ایک قریبی
گاؤں عملہ پور میں فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنی نور اللہ مرقدہ کے
مبارک ہاتھوں سے مدرسہ کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا، جو آج جامعہ حسینیہ عملہ پور کے
نام سے معروف ہے اور کرناٹک کے علاقہ میں دینی ، تعلیمی ، تربیتی وقیع خدمات انجام
دے رہا ہے، حضرت مفتی صاحب کی جہد مسلسل ، شب وروز کی دوڑ دھوپ اور مدرسہ کی تعمیر
و ترقی کے لیے آپ کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے کہ آج جامعہ حسینیہ تعلیمی ، تربیتی
و تعمیری ہر اعتبار سے کرناٹک کے بڑے مدارس میں شمار ہوتا ہے، ماشاء اللہ جامعہ
میں اس وقت عربی پنجم تک تعلیم ہورہی ہے۔
بیعت و ارشاد :
آپ دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی
میں ہی، تکمیل افتاء کے سال فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنی قدس سرہ سے
بیعت ہوگئے تھے، حضرت فدائے ملت کے وصال کے بعد آپ نے حضرت مولانا خورشید احمد
صاحب خلیفہ حضرت فدائے ملت کی طرف رجوع کیا، چوں کہ تصوف و سلوک کے منازل آپ حضرت
فدائے ملت کی زیر نگرانی طے کرچکے تھے، اس لیے کچھ ہی دنوں کے بعد حضرت مولانا
خورشید احمد صاحب نے آپ کو چاروں سلسلوں : چشتیہ ، نقشبندیہ، قادریہ ، سہروردیہ
میں اجازتِ بیعت عطاء فرمادی،آپ کو اپنے خسر جناب صوفی منظور احمد صاحب (جو صوفی
معین الدین صاحب کے والد بزرگوار ہیں) سے بھی خلافت حاصل تھی۔
جمعیۃ علماء ہند سے وابستگی :
آپ کو شروع ہی سے ’’جمعیۃ علمائے ہند‘‘
اور اُس کے مقاصد سے قلبی لگاؤ رکھتے تھے، چناں چہ یہی وجہ تھی کہ آپ ’’جمعیۃ علمائے
ہند‘‘ کی تمام تحریکات میں ہمیشہ پیش پیش رہے، ۱۹۹۴
سے ۲۰۱۴ء تک بیس سال جمعیۃ علماء صوبہ کرناٹک کے
بلا اختلاف صدر رہے۔
آپ کا خاص وصف :
آپ کو اللہ تعالی نے علم ظاہری کے ساتھ
باطنی کمالات سے بھی خوب نوازا تھا، امانت و دیانت، تقوی و پرہیزگاری، خشیت و خوف
الٰہی، صبر و شکر ،خلوص وللہیت میں آپ اسلاف کا نمونہ تھے۔ خوش اخلاقی، جود و
سخاء اور مہمان نوازی آپ کا خاص وصف تھا، آپ کے دسترخوان سے ہر وارد و صادر فیض
یاب ہوتاتھا،اس سلسلے میں شناسا و غیر شناسا اور اجنبی و غیر اجنبی کی کوئی تمیز
نہ تھی، جو معاملہ جود وسخا اور ضیافت کا شناساؤں اور اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ
ہوتا تھا، وہی ان کے ساتھ بھی ہوتا تھا جن سے کوئی شناسائی اور جان پہچان نہیں
تھی۔
سفر آخرت :
آپ سال گذشتہ حج کے لیے تشریف لے گئے، حج
کے تمام مناسک اطمینان سے اداء کیے، ہر وقت تلاوت اور ذکر میں مشغول رہتے، کہ
اچانک بخار شروع ہوگیا،اور دماغ پر اثر کرگیا، جس کی وجہ سے آپ پر بے ہوشی طاری
ہوگئی، ہسپتال میں علاج معالجہ بھی بہتر سے بہتر ہوتا رہا؛ مگر خالق حقیقی سے ملنے
کا وقت آپہنچا تھا، اور کچھ دنوں قبل مکہ معظمہ کے مشہور قبرستان ’’جنت المعلی ‘‘
کے پاس سے گذرتے ہوئے جو تمنا اور آرزو آپ نے یہ کہتے ہوئے کی تھی کہ :
’’ایسی
مقدس جگہ دفن ہونا ہمارے مقدر میں کہاں؟ اے اللہ! تو نے مجھے اپنے گھر بلایا ہے،
اب کب تک بلاتا رہے گا۔‘‘
وہ رب کائنات نے سن لی تھی، ۲۱ ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ کو جمعہ کی شب میں مغرب بعد ہوش میں
آگئے، اور مسکراتے ہوئے تین بار زور زور سے کلمہ شہادت پڑھا اور اپنے تمام محبین
، متوسلین ، معتقدین اور اعزہ و اقرباء کو روتا ، بلکتا اور سسکتا ہوا چھوڑ کر
ہمیشہ کے لیے اپنے رب سے جاملے ۔ إنا للہ و إنا الیہ رجعون
نماز جمعہ کے بعد امام حرم شیخ ابراہیم
حفظہ اللہ نے لاکھوں حاجیوں کے مجمع میں نماز جنازہ پڑھائی، اور آپ کی آرزو کے
عین مطابق مکہ معظمہ کے عظیم قبرستان ’’جنت المعلٰی ‘‘ میں تدفین عمل میں آئی۔
اللہ تعالی حضرت کے درجات کو بلند فرمائے،
اعلیٰ علیین میں جگہ عنایت فرمائے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق
عطا فرمائے۔
پس ماندگان :
آپ نے اپنے پس ماندگان میں پانچ صاحبزادے
: مولانا محمد عثمان مظاہری، مولانا محمد نعمان مظاہری، مولانا سلطان، مولوی سفیان
اور مولوی محمد سلمان ، اورچار صاحبزادیاں :سعدیہ، عائشہ، فاطمہ اور اسماء چھوڑیں۔
مولانا محمد عثمان صاحب حضرت کے بعد آپ کے
جانشین اور جامعہ حسینیہ عملہ پور کے مہتمم ہیں، مولانا نعمان صاحب جامعہ حسینیہ
کے صدر مدرس ہیں، مولانا سلطان صاحب مدرسہ مدنیہ موضع ابراہیمی ضلع سہارنپور
(یوپی) کے مہتمم ہیں۔آپ کی صاحبزادیوں میں سے عائشہ ہمارے رفیق مکرم جناب مولانا
حسین احمد صاحب بڈھن پوری سابق استاذ حدیث دار العلوم جلال آباد کے نکاح میں ہیں،
اس طرح مولانا حسین احمد صاحب، حضرت مفتی صاحب قدس سرہ کے داماد ہوتے ہیں۔ (مولانا حسین احمد صاحب کی تحریک پر ہی تقریباً تین سال قبل یہ مضمون
لکھا گیا تھا۔)
اللہ تعالی ان سب کو خیر وعافیت سے رکھے
اور اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں