حضرت مفتی سعيد احمد صاحب پالن پوری، کچھ ياديں کچھ باتيں
حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری : کچھ یادیں کچھ باتیں
بقلم : محمد جاوید قاسمی بالوی، استاذ حدیث جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت ، ضلع شاملی (یوپی)
۱۹۹۷ء کا سن تھا اور ہمارا عربی اول کا
سال، مدرسہ امداد العلوم خانقاہ امدادیہ اشرفیہ تھانہ بھون میں ہم زیر تعلیم تھے، جب
ہم نے محدثِ کبیر ، فقیہ عصر، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب
پالن پوری نور اللہ مرقدہ کا پہلی مرتبہ ذکرِ خیر سنا،ہمارے نحومیر کے استاذ حضرت
مولانا مزمل صاحب دیناج پوری نئے نئے دار العلوم دیوبند سے فارغ ہوکر آئے تھے،وہ دورانِ درس دار العلوم دیوبند اور وہاں کے
اساتذہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اکثر فرمایا
کرتے تھے کہ دار العلوم میں حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری جب سبق پڑھاتے
ہیں ، کوئی بھی طالب علم غیر حاضر نہیں رہتا، سب طلبہ ہمہ تن گوش ہوکر سبق سنتے
ہیں،ان کا سبق پڑھانے اور سمجھانے کا انداز ایسا دل نشیں ہے کہ دار الحدیث کے پاس
سے جو بھی گذرتا ہے،خواہ پڑھا لکھا آدمی
ہو یا ان پڑھ، رک کر ان کا سبق ضروری سنتا ہے۔ یہ حضرت مفتی صاحب کی عظمت ،
محبوبیت اور مقبولیت کا پہلا نقش تھا جو ہمارے دل پر اُس وقت قائم ہوا جب ہم عربی
اول کے طالب علم تھے۔
۲۰۰۱ء میں ہم دار العلوم دیوبند میں عربی ششم میں داخل ہوئے ، ہماری درس گاہ ( ششم ثانیہ) دنیا بھر میں دار العلوم کی شناخت بننے والی سرخ دار الحدیث کے برابر میں تھی، درمیان میں صرف ایک راہ داری حائل تھی،حضرت مفتی صاحب کا دورہ میں تیسرا گھنٹہ تھا، جب ہمارا تیسرا گھنٹہ خالی ہوتا یا استاذ محترم کے آنے میں دیر ہوتی ، کبھی کبھی ہم دار الحدیث کے دروں میں بیٹھ کر حضرت مفتی صاحب کے سبق میں شریک ہوجایا کرتے تھے، یہ اس عاجز کے لیے مفتی صاحب کا سبق سننے کا پہلا موقع تھا۔
۲۰۰۳ء میں ہم دورہ حدیث میں پہنچے، توباضابطہ حضرت مفتی صاحب سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی، اگرچہ ہفتم کے شش ماہی اور سالانہ دونوں امتحانوں میں اس حقیر کی دوسری پوزیشن تھی؛ مگر اگلی تپائیوں کے بجائے مسند درس کے برابر میں دائیں جانب بیٹھنے کی جگہ ملی،اس وقت اگلی تپائیوں پر اوسط کے اعتبار سے بیٹھنے کا نظام نہیں تھا، جس کو پہلے دن جہاں جگہ مل جاتی، وہی پورے سال کے لیےاس کی نششت گاہ متعین ہوجاتی۔ حضرت مفتی صاحب سے ’’جامع ترمذی جلد اول‘‘ ، ’’علل الترمذی الصغیر‘‘، اور’’ شرح معانی الآثار‘‘ (کتاب الطہارۃ) پڑھنے کا موقع ملا، تیسرے گھنٹے میں اور مغرب بعد سبق ہوتاتھا۔حضرت مفتی صاحب کے درس کو اللہ تعالی نے بڑی مقبولیت اور نمایاں خصوصیات سے نوازا تھا۔
·
جو طلبہ محنتی اور پڑھنے کے شوقین ہوتے تھے وہ تو آپ کے سبق کی پابندی کرتے ہی تھے؛ مگر جو طلبہ گھومنے پھرنے ، ہوٹل بازی اور فضول کاموں میں وقت گزارنے کے عادی
ہوتے، اور امتحان میں کسی طرح پاس ہونے
ہی کو کامیابی کی معراج سمجھتےتھے، وہ بھی اہتمام سے آپ کے سبق میں حاضر ہوتے تھے۔
·
حضرت مفتی صاحب کی عادت شریفہ تھی کہ جس دن طلبہ کم ہوتے ، آپ ناراض
ہوکر واپس تشریف لے جاتے، اوراس دن سبق
نہ پڑھاتے،عصر بعدطلبہ ترجمان کے
ساتھ حضرت کے مکان پر جاکرمعافی طلب کرتے،
تو آپ بعد مغرب سبق پڑھانے کے لیے تشریف لاتے ۔ہر سال ایک سے زائد بار اس کی نوبت
آجاتی تھی۔
·
آپ وقار کے ساتھ دار الحدیث میں تشریف
لاتے، مسند درس کے سامنے کھڑے ہوکربلند
آواز سے طلبہ کوسلام کرتے، تھوڑا آگے جھک کر وقار کے ساتھ بیٹھتے ،وقار کے ساتھ بولتے جس حالت میں شروع میں ایک بار بیٹھ جاتے ،عموماً پورے سبق میں اسی حالت پر بیٹھے رہتے، دورانِ درس آپ کوپہلو بدلتے ہوئےکم ہی دیکھاگیا۔
·
آپ کا درس بے فائدہ تکرار ، غیر ضروری کلام اور غیر متعلق باتوں سے پاک ہوتا تھا۔ درس میں آپ کا کوئی خاص تکیہ کلام بھی نہیں تھا۔ ہاں ! جب دار الحدیث میں آکر مسند
درس پر بیٹھتے یا کبھی پہلو بدلتے تو لا الہ الا اللہ ضرور کہا کرتے تھے۔
·
سبق ہوتا یا اصلاحی بیان، وعظ و نصیحت ہوتی یا علمی بحث، اس کا دورانیہ کم ہوتا یا زیادہ، آپ
کی آواز اور بولنے کا انداز ہمیشہ یکساں رہتا تھا۔ بسا اوقات آپ کے درس کا سلسلہ دو
گھنٹے تک جاری رہتا ؛ لیکن آواز اور لب و لہجے میں کوئی فرق نہ آتا۔
· ‘‘
جامع ترمذی’’ کا درس شروع کرنے سے پہلے ، آپ ایک تفصیلی مقدمۃ العلم بیان فرمایا
کرتے تھے، جس میں وحی کی اقسام، حدیث کے وحی ہونے کے دلائل، حجیتِ حدیث، نبی ﷺ کے اجتہاداورخواب کے وحی ہونے کا ثبوت،اجماع و قیاس کی
حجیت،تدوینِ حدیث کتبِ ستہ کے مصنفین کا زمانہ، حدیث اور فن حدیث کی تعریف، موضوع، غرض و غایت ، تقلید شخصی کی ضرورت و اہمیت ، مصنفات حدیث کی اقسام، مراتبِ جرح
و تعدیل، صحاح ستہ کے رواۃ کے طبقات ، جامع ترمذی کا پورا نام، وجہ تسمیہ، امام ترمذی
کے مختصر حالات اور صحاح میں درج احادیث کی اجمالی اقسام جیسے اہم مباحث تفصیل کے
ساتھ بڑے دل نشیں پیرایہ میں بیان فرمایا کرتے تھے۔
· ’’جامع ترمذی ‘‘ کے آخر میں امام ترمذی کی ’’ کتاب العلل الصغیر‘‘ لگی ہوئی ہے، جو در
اصل ’’جامع ترمذی‘‘ کا مقدمہ لاحقہ ہے،جس میں امام ترمذی نے اپنی سنن کے متعلق
سولہ باتیں بیان کی ہیں،حضرت مفتی صاحب کتاب شروع کرنے سےپہلے اسے بھی ہر سال اہتمام سے پڑھاتے تھے۔
·
جب کتاب شروع کرنے کا وقت آتا، تو آپ تین حصوں میں تقسیم کرکے امام ترمذی تک اپنی پوری سند بیان فرمایا کرتے تھے۔
·
آپ کا درس نہایت جامع، مرتب اور عام فہم ہوتا تھا، اللہ تعالی نے آپ کو افہام و
تفہیم اور اپنی بات سامعین کے دلوں میں اتارنے کا ایسا منفرد انداز اور خاص
ملکہ عطا فرمایا تھا کہ آپ کے درس میں مشکل سے مشکل مباحث بھی آسان معلوم ہوتے تھے،
غبی سے غبی طالب علم بھی آپ کے درس میں کتاب فہمی سے محروم نہیں رہتا تھا؛ بلکہ
اگر کوئی عام آدمی بھی سبق میں شریک ہوجاتا، وہ بھی آپ کا سبق سمجھ لیا کرتا تھا۔ آپ
پڑھاتے نہیں تھے ؛ بلکہ گھول کرپلاتے تھے۔
·
آپ ہر مضمون کو چاہے وہ آسان ہوتا یا
مشکل، ایسےخوب صورت انداز اور اہمیت سے بیان
فرماتے کہ سامعین اس کوپورے انہماک، کامل دھیان اورمکمل توجہ سےسنتےاور انھیں ایسا
لگتا کہ جیسے آج پہلی بار یہ بات سنی ہے۔
·
آپ کےیہاں سبق کو ہر چیز پر اولیت حاصل تھی، تعلیمی اوقات میں سفر نہ فرماتے، آپ کا درس پورے سال پابندی سے ہوتا تھا، گھنٹہ لگتے ہی درس گاہ میں تشریف لے آتے، اور اس کی پرواہ
کیے بغیر کہ بات پوری ہوئی یا نہیں، گھنٹہ ختم ہوتےہی سبق مکمل کردیتے،دوسرے
استاذ کا وقت نہ لیتے۔
·
عام طور پر مدارس میں یہ ہوتا ہے کہ دورہ حدیث میں شروع سال میں ہر حدیث پر
تفصیلی کلام کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے سبق کی مقدار بہت کم ہوتی ہے، اور آخر سال
میں سردًا کتاب پوری کرادی جاتی ہے؛ لیکن مفتی صاحب کے درس کی یہ خصوصیت تھی
کہ آپ کے یہاں پورے سال سبق کی رفتار ایک سی رہتی تھی، جتنا کلام شروع سال میں
ہوتا اتناہی آخر سال میں بھی ہوتا تھا۔ اسی
وجہ سے آپ کے درس کا سلسلہ اکثر شعبان تک جاری رہتا تھا۔
·
اختلافی مسائل میں ائمہ کے مذاہب ،دلائل اور مذہب ِ حنفی کی وجوہِ ترجیج بیان
کرتے ہوئے ،اعتدال، انصاف اور حق پسندی کا دامن کبھی نہ چھوڑتے، اس طرح کے مسائل
میں مناظرانہ انداز کے بجائےآپ پرہمیشہ مجتہدانہ رنگ غالب رہتا، اختلاف کے ساتھ
وجہ اختلاف بھی لازماً بیان فر ماتے، یہ ضرور بتاتے کہ زیر بحث مسئلے میں اختلاف
نص فہمی کی وجہ سے ہوا ہے یا دلائل کے
اختلاف کی وجہ سے۔
·
سال کے آخر میں کتاب کے اختتام کے موقع پر آپ کی نصائح بھی بڑی اہم، مفیداور کارآمد ہوتی تھیں، جن کی روشنی میں ہر فاضل اپنے تابناک اور روشن مستقبل کی بنیاد
رکھ کر کامیابی کی منازل طے کرتا ہوا دینی، دنیوی، علمی،عملی ترقی کے بامِ عروج تک پہنچ سکتا
تھا۔ ان پرعمل کرکےکامیاب مدرس، بافیض مبلغ اور بہترین مصنف و مؤلف بننے کی راہ
ہموار ہوتی تھی۔
·
درس میں اگر کسی طالب علم کو کوئی اشکال پیش آتا ، تو وہ پرچی لکھ کر ترجمان
کے پاس بھیج دیتا، جب مفتی صاحب سبق پڑھاکر فارغ ہوتے، ترجمان وہ پرچیاں آپ کو
دیدیتا،آپ گھر جاکر ان کو دیکھتے، جو اشکال اہم اور لائقِ جواب ہوتا، اگلے وقت
میں سبق شروع کرنے سے پہلے اس کا جواب دیتے۔
· اس عاجز نے بھی دورہ حدیث کے سال متعدد بار اشکالات کی پرچیاں لکھیں، حضرت نے نہ صرف یہ کہ ان کے تشفی بخش جوابات دئیے؛ بلکہ
بندے کے بعض اشکالات کو سراہا بھی، ایک بار فرمایا کہ ’’ ایک طالب علم نے ایک اشکال
کیا ہے، اس کا ابھی اجمالی جواب دے رہا ہوں، اسے صرف وہی سمجھے گا، تم نہیں
سمجھو گے، اس کا تفصیلی بیان آگے آئے گا، وہاں تم بھی اسے سمجھ سکوگے۔‘‘
· بندہ کی عادت مطالعہ کرکے سبق پڑھنے کی رہی ہے، ترمذی کے اگلے سبق کے مطالعہ میں ’’العرف الشذی‘‘ ’’تقریر ترمذی حضرت شیخ الہند‘‘، ’’الکوکب الدری‘‘ اور حاشیہ کے علاوہ رواۃ کے بنیادی حالات اور درجہ جاننے کے لیے ’’تقریب التہذیب‘‘ بھی مطالعہ میں رہتی تھی، ایک بار اگلا سبق دیکھتے ہوئے ایک جگہ مجھے شبہ ہوا کہ یہاں سند میں سقطہ ہے، کوئی راوی ساقط ہوگیا ہے، میں انتظار میں رہا کہ شاید حضرت مفتی صاحب اس پر سبق میں روشنی ڈالیں گے؛ لیکن جب حضرت نے وہ روایت پڑھائی تو اس حوالے سے کچھ نہیں فرمایا، میں نے پرچی لکھ دی کہ سندکے رایوں کے سنینِ ولادت و وفات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سند میں کوئی راوی ساقط ہے؟ مغرب بعد مفتی صاحب نے آکر فرمایا کہ ’’ایک طالب علم نے پرچی لکھی ہے، وہ کہتا ہے کہ یہاں کوئی روای ساقط ہے، وہ ٹھیک کہتا ہے، یہاں فلاں راوی ساقط ہے، یہ کتابت کی غلطی ہے، ہندوستانی نسخے میں بہت اغلاط ہیں، میں تمہیں کہاں تک بتاؤں‘‘!!
· قراء ت خلف الامام کی بحث میں آپ نے حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کے حوالے سے یہ بیان کیاکہ امام ابوحنیفہ ؒکے نزدیک امام واسطہ فی العروض ہوتا ہے اور امام شافعیؒ کے نزدیک واسطہ فی الثبوت،مفتی صاحب نے اس کی جو تفصیل بیان کی اُس پر مجھے اشکال ہوا، میں نے اپنا تفصیلی اشکال لکھ کر جو کاپی کے مکمل ایک صفحے پر مشتمل تھا، ترجمان (بھائی خلیل الرحمان برنی )کے توسط سے حضرت کو دیا ، مغرب بعد جب سبق پڑھانے کے لیے تشریف لائے تو فرمایا کہ’’ ایک طالب علم نے ایک صفحہ کا اشکال لکھ کر دیا ہے، وہ امام کے واسطہ فی الثبوت یا واسطہ فی العروض ہونے کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہے، میں نے اسے پڑھے بغیر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا، مجھے اتنی فرصت کہاں ؟ کہ اتنی لمبی تحریر پڑھوں، اسے اگر کوئی اشکال ہے تو عصر بعد میرے گھر آئے ، وہاں اپنا اشکال بتائے، جواب دوں گا۔‘‘ لیکن یہ میری حرماں نصیبی رہی کہ میں عصر بعد بالمشافہ حضرت کے سامنے اپنا اشکال پیش کرنے کی ہمت نہ کرسکا ۔
یہ حقیقت ہے کہ حضرت مفتی صاحب نہایت مشغولیت اور یکسوئی کی زندگی گذارنے کے عادی تھے، آپ نے خود کو ایک نظام الاوقات کا پابند بنایا ہوا تھا، آپ کے یہاں ہر کام کا ایک وقت مقرر تھا، اس میں صرف وہی کام کرتے تھے۔ عصر کے بعد آپ کی مجلس لگتی تھی، جس میں اکثر طلبہ اور علماء ہوتے تھے، اس وقت بھی آپ خالی نہیں بیٹھتے تھے، ایک طالب علم سر پر تیل لگاتا یا بدن دباتا رہتا، اور آپ مطالعہ یا ذکر میں مشغول رہتے، کوئی سوال کرتا، اس کا جواب دے کر پھر اپنے کام میں لگ جاتے۔ ادھر ادھرکی لایعنی اور فضول باتوں سے کلی طور پر اجتناب فرماتے۔ یہ حقیراپنے طبعی شرمیلےپن اور آپ کےعلمی رعب کی وجہ سے، اپنے آٹھ سالہ قیامِ دار العلوم کے زمانے میں چار پانچ مرتبہ سے زیادہ آپ کی اس بافیض مجلس میں شریک نہ ہوسکا؛ اور جب بھی گیا، خاموش بیٹھ کر آپ کے علمی افادات اور فیوض و برکات سے مستفیض ہوکر واپس آگیا، کبھی کوئی سوال کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
تخصص فی الحدیث کے دوسرے سال اس عاجز نے اشرف بھائی اعظمی کے ساتھ مل کر ،حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب
کاندھلویؒ کی کتاب مشہور کتاب ’’الاعتدال فی مراتب الرجال‘‘ کی تحقیق و تخریجِ احادیث کا کام کیا تھا، اگلےسال جب یہ عاجز دار العلوم میں معین مدرس ہوگیا، وہ طبع
ہوکر منظر عام پر آئی ، یہ عاجز اُس کا ایک نسخہ لے کر، عصر بعد حضرت مفتی صاحب کی
مجلس میں حاضر ہوا، حضرت نے جب کتاب دیکھی، تو فرمایا کہ’’یہ ہیں کرنے کے کام، لوگ اردو شرحات لکھنے میں لگے ہوئے ہیں، اپنے اکابر کی کتابوں کو تحقیق و تخریج
کرکے جدید طرز پر ایڈٹ کرنا چاہئے ، تم نے اچھا کام کیا ہے۔‘‘
۲۰۰۸ء میں حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب سابق شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار
العلوم دیوبند کی جگہ آپ کو صدر المدرسین بنایا گیا ، اس وقت اس عاجز کا معین مدرسی کا
دوسرا سال تھا، آپ نے دفتر اہتمام میں تمام اساتذۂ عربی کی میٹنگ بلائی ، اُس میں
دیگر معین المدرسین کے ساتھ یہ حقیر بھی شریک تھا، اُس وقت آپ نے دیگر اہم قیمتی
باتوں کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ’’آپ سب حضرات سبق کی اچھی طرح تیاری اور مطالعہ
کرکے سبق پڑھائیے ، اور اگر کسی کو کسی کتاب میں کوئی مقام حل نہ ہو، تووہ مجھ سے پوچھے۔‘‘ حضرت مفتی صاحب خود محنت ، مطالعہ
اور تیاری کرکے سبق پڑھانے کے عادی تھے، آپ یہ چاہتے تھے کہ تمام اساتذہ ایسا ہی
کریں۔
اسی زمانہ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ ہمارے ایک معین مدرس ساتھی نے عربی دوم کے ایک طالب علم کی سبق یاد نہ ہونے کی وجہ سے اچھی خاصی پٹائی کردی، جس سے اس کے دونوں ہاتھوں پر نشان پڑگئے ،اس نے حضرت مولانا مجیب اللہ صاحب (جو اس وقت نئے نئے ناظم تعلیمات مقرر ہوئے تھے) سے شکایت کردی، مولانا مجیب اللہ صاحب نے حضرت مفتی صاحب کو بذریعہ فون اس کی اطلاع کی، تو آپ نے اگلے روز چوتھے گھنٹے میں تمام معین مدرسین کو دفتر تعلیمات میں طلب کرلیا، ہم اُس وقت سات معین مدرس تھے، سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے نہایت نرمی سے ہمیں مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’یہ حقیقت ہے کہ تدریس کے دوران تنبیہ اور بسااوقات پٹائی کی بھی ضرورت پیش آتی ہے؛ لیکن اب پہلے جیسے طلبہ نہیں رہے، زیادہ پٹائی کو برداشت نہیں کرتے ، اس لیے محبت و نرمی سے پڑھاؤ ، ضرورت پڑے تو پٹائی بھی کرو ؛ لیکن ایسی پٹائی نہ کرو کہ جسے طالب علم برداشت نہ کرسکے۔‘‘ اس کے بعد فرمایا کہ اب جاؤ اور محنت سے پڑھاؤ ۔ یہ نصیحت آپ نے ایسے انداز سے فرمائی کہ صاحب معاملہ کو تو معلوم ہوگیا کہ اس نصحیت کے اصل مخاطب وہ ہیں؛ البتہ باقی لوگوں کو یہ پتہ نہ چل سکا کہ پٹائی کس نے کی تھی، بعد میں معلوم کرنے پر اُن صاحب کا پتہ چلا۔
حضرت مفتی صاحب کےبعض مسائل میں اپنے کچھ تفردات بھی تھے، جو آپ کے درسی افادات میں موجود ہیں، جن میں سے بعض پر آپ کی حیات ہی میں کافی بحث و مباحثہ اور مناقشات کا سلسلہ چلا، مجھے اُن تفردات سے کبھی مناسبت نہ ہوسکی ، نہ زمانہ طالب علمی میں حضرت سے پڑھتے ہوئے اور نہ اس کے بعد، اس حوالے سے مزید کچھ کہنا مجھ جیسے ادنی طالب علم کے لیے ’’چھوٹا منہ بڑی بات ‘‘ ہوگی۔
آپ کو فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحبؒ سابق ناظم مظاہر علوم سہارن پور اور محی السنۃ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی ؒسے اجازتِ بیعت اور خلافت حاصل تھی؛ لیکن آپ نے درس و تدریس ،تصنیف وتالیف ،دیگر علمی مصروفیات اور خلوت پسند ہونے کی وجہ سے ،بیعت اور تصوف و سلوک کے لیے کوئی خانقاہی نظام شروع نہیں کیا۔
آہ ! ۲۵ رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ، مطابق ۱۹مئی ۲۰۲۰ء بروز منگل صبح ساڑھےچھ بجے ،آپ اپنے متعلقین، محبین، متوسلین اور ہزاروں شاگردوں کو روتے بلکتے چھوڑکرہمیشہ کے لیے وہاں چلے گئے جہاں سب کو جانا ہے اور جہاں جاکر کبھی کوئی اس دنیا میں واپس نہیں آتا، آپ کو سفر آخرت کے لیے رمضان کی مبارک ساعتیں ملنا یقینًا قابل ِ رشک ہے؛ لیکن ہم جیسے آپ کے ہزاروں شاگردوں کے لیے یہ بڑے رنج، نہایت تکلیف اور افسوس کی بات تھی کہ لاک ڈاؤن کی بناء پر سفری پابندیاں عائد ہونے کی وجہ سے، ہزارہا تمناؤں کے باوجود آپ کا آخری دیدار کرسکے نہ جنازے میں شریک ہوسکے۔ اس کا ہمیشہ افسوس رہے گا۔
اللہ تعالی حضرت مفتی صاحب کی مغفرت فرمائے ، درجات بلند فرمائے، آپ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ،لغزشوں کو معاف فرمائے، آپ کے اعمال حسنہ اور علمی کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، اور ہم تمام شاگردوں کو اوصافِ حسنہ اور علمی کمالات کی تحصیل میں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
ماشاء اللہ بھت خوب
جواب دیںحذف کریںشاندار، ماشاءاللہ زمانہ طالب علمی میں ہی آپ روات کے احوال دیکھ کر پھر سبق پڑھا کرتے تھے
جواب دیںحذف کریں