حضرت مولانا محمد کامل صاحب سابق مہتمم جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت
تواضع وانابت کا سرمایہ دار تھا، نہ رہا
بہ قلم: مفتی محمد جاوید قاسمی بالوی
استاذِ حدیث جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت
تغیرات وتلونات کی اس دنیا میں ، جہاں ہر چیز کا وجود اُس کی فنائیت کی دلیل، اور ہر شئی کا ظہور اُس کے عدم کی علامت بن کر ابھر تا ہے، چشم فلک نے ابتدائے آفرینش سے لے کراب تک نہ معلوم کتنے انسانوں کو شکم مادر سے جنم لیتے اور ایک مقررہ وقت پر ہمیشہ کے لیے پیوندِ خاک ہوتے دیکھا ہے، نہیں کہا جاسکتا کہ اب تک کتنے انسان پیدا ہوئے اور آئندہ قیامت تک کتنے اور پیدا ہوں گے، بنی نوع انسان کا یہ ایک بے اتاہ سمندر ہے جس کا تموج روز افزوں ہے۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اور جنات کی تخلیق جس اہم اور پاکیزہ مقصد (یعنی لا شعوری زندگی کے زمانے سے گذر کر، شعوری زندگی کے دور میں داخل ہونے کے بعد ، زندگی کے ہر شعبے وہرطرح کے حالات میں مکمل طور پر ربِّ کائنات کی اطاعت وبندگی) کے تحت ہوئی ہے، اس کی تحصیل وتکمیل میں جو لوگ زندگی بھر حیراں وسرگرداں اور اپنی سی آخری درجے کی کد وکاوش میں مصروف رہتے ہیں، انھیں کو اس دنیا میں خالقِ کائنات کی طرف سے حیاتِ ابدی حاصل ہوتی ہے، اُن کو اُن کی زندگی میں تو لوگ یاد کرتے ہی ہیں، دارِ فانی سے دارِ باقی کی جانب کوچ کر جانے کے بعد بھی اُنھیں یاد رکھا جاتا ہے، اور مرورِ ایام کے ساتھ اس یاد میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے؛ چناں چہ صدیاں بیت جانے کے باوجود ایسا لگتا ہے جیسے کل تک وہ زندہ تھے، یہ سب ان کی صلاح ونیکی، ورع وتقوی، تضرع وانابت، تواضع وفنائیت، اخلاص وللہیت اور مقصدِ حیات کی تحصیل میں اُن کی طرف سے کی جانے والی جد وجہد کا غیر متخلف نتیجہ ہوتا ہے۔
ولی کامل، نمونۂ اسلاف ، تواضع وبے نفسی کے پیکر، اخلاقِ نبوی کی چلتی پھرتی تصویر، رہبرِ قوم وملت، حضرت اقدس مولانا الحاج محمد کامل صاحب کاندھلوی نور اللہ مرقدہ انھیں پاکیزہ نفوس میں سے تھے جنھوں نے مقصد حیات کو پوری طرح سمجھا، خود بھی مسلسل اس کی تحصیل میں مشغول رہے، اور دوسروں کے اندر بھی اُس کا شعور واحساس پیدا کرنے کی فکر میں زندگی بسر کی، اتباع سنت اور تواضع وعاجزی (جو مقصدِ حیات کا بنیادی عنصر) ہے آپ کی ذات عالی میں کچھ اس طرح چھائی ہوئی تھی، کہ ایسا لگتا تھا کہ گویا آپ کا خمیر ہی اتباع سنت اور تواضع سے اٹھا ہے، ایک ایک چیز میں سنتِ نبوی کی تلاش وجستجو اس کی کامل پیروی اور تبلیغ واشاعت، اپنے اور پرائے کا فرق کیے بغیر ہر وارد وصادر کے ساتھ حسن اخلاق اور نرمی کا برتاؤ، انتہائی درجہ کی تواضع، عاجزی اور انکساری حضرت کاندھلوی کے وہ اوصاف ہیں جو دوسرے لوگوں میں خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔
مولانا موصوف شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی نور اللہ مرقدہ کے عاشق زار شاگرد وخادم خاص، اور فدائے ملت امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنی قدسرہ کے مجاز وخلیفہ، ایک صاحب ِ ارشاد بزرگ تھے، تقوی وپرہیزگاری، صدق ودیانت، اخلاص و للہیت، علم وعمل اور تصوف وسلوک میں اسلاف کا نمونہ تھے۔
ولادت:
آپ کا آبائی وطن علم وحکمت کی سرزمین قصبہ کاندھلہ (محلہ گوجران )ہے، آپ۱۹۳۳ء میں پیدا ہوئے (دن اور مہینہ معلوم نہیں ہوسکا)، آپ نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہاں کوئی خاص دینی ماحول نہیں تھا، آپ کے والد چودھری مشرف علی اگرچہ اپنی آخری زندگی میں اچھے دین دار ہوگئے تھے؛ لیکن شروع میں اُن کی دینی حالت کوئی زیادہ اچھی نہ تھی، وہ پہلوانی کرتے تھے، اور بعد میں سرکاری ملازم بھی ہوگئے تھے، البتہ آپ کی والدہ ایک باخدا نیک خاتون تھی، حضرت کی تعلیم وتربیت میں آپ کی والدہ، حضرت کے تایاجان اشرف علی اور دادا شمس الدین کا زیادہ دخل رہا۔ اسے حق تعالی کی رحمت خاصہ اور حضرت کی دین اور احکام دین سے فطری وطبعی دل چسپی کا نتیجہ ہی کہا جائے گا کہ بچپن ہی سے صلاح ونیکی اور ولایت وتقوی کے آثار آپ میں ظاہر ہونے لگے۔
تعلیم:
ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے وطن کاندھلہ میں حاصل کی، چھ یا سات سال کی عمر تھی جب آپ کو مکتب میں بٹھایا گیا، شروع میں حافظ عبد اللطیف صاحب کے پاس ’’گڑھواؤں والی مسجد‘‘ میں بھیجے گئے، وہاں آپ نے قاعدہ بغدادی پڑھا، اس کے بعد ’’مدرسہ نصرۃ الاسلام جامع مسجد‘‘ میں منتقل کردئیے گئے، وہاں اولًا حافظ شریف احمد صاحب سے دوپارے پڑھے، پھر حافظ عبدالعزیز صاحب کے پاس پہنچ کر باقی قرآن کریم حفظ وناظرہ ایک ساتھ مکمل کیا ، آپ کو پڑھنے کا بڑا شوق تھا، جمعرات کو دو دن کا سبق لے کر سنیچر کو دوگنا سبق سنادیا کرتے تھے۔ حفظ کی تکمیل کے بعد ،’’مدرسہ نصرۃ الاسلام‘‘ ہی میں مولانا عبدالجلیل صاحب بستویؒ اور حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب نور اللہ مرقدہ کے پاس عربی سوم تک کی کتابیں پڑھی۔ اس کے بعد حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلویؒ سابق شیخ التفسیر دار العلوم دیوبند کے ایماء پر، شوال ۱۳۶۸ھ مطابق ۱۹۴۸ء میں، جب کہ آپ کی عمر تقریباً پندرہ سال تھی، ازہر ہند دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے، اوروہاں مسلسل پانچ سال تعلیم میں مشغول رہ کر ۱۹۵۲ء میں ’’دورۂ حدیث شریف‘‘ سے فراغت حاصل کی، بخاری شریف حضرت شیخ الاسلام ؒ سے پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔ آپ کے رفقائے دورۂ حدیث میں حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری سابق شیخ الحدیث دار العلوم وقف دیوبند، حضرت مولانا زین العابدین صاحب اعظمی سابق صدر شعبۂ تخصص فی الحدیث مظاہر علوم سہارن پور اور بحر العلوم حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی صدر شعبۂ تخصص فی الحدیث دار العلوم دیوبند خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ دورہ سے فراغت کے بعد آپ نے دار العلوم دیوبند کے شعبۂ تجوید میں داخلہ لیا؛ لیکن کسی عارض کی بناء پر اس کی تکمیل نہ فرماسکے۔
اساتذہ:
شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، شیخ الادب، مولانا اعزاز علی صاحب، علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی، مولانا فخر الحسن صاحب، مفتی مہدی حسن شاہ جہاں پوری، مولانا حسین احمد بہاری، مولانا عبد الاحد صاحب اور حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب وغیرہ آپ کے خاص اساتذہ میں ہیں۔ دوارنِ تعلیم آپ حضرت شیخ الاسلامؒ کی’’ مدنی مسجد‘‘ کے امام ومؤذن اور حضرت کے خادم بھی رہے۔ یوں تو آپ کو اپنے تمام ہی اساتذہ سے عقیدت ومحبت تھی؛ لیکن حضرت شیخ الاسلام اور آپ کے خانوادے سے آپ کا محبت وعقیدت کا والہانہ تعلق دیدنی تھا، بندے نے بارہا دیکھا جب بھی آپ حضرت شیخ الاسلام کا ذکر کرتے تو فر طِ محبت سے آبدیدہ ہوجاتے تھے۔
تدریسی خدمات:
فراغت کے بعد، تجوید کی تعلیم کا سلسلہ درمیان میں موقوف کرکے، ۱۹۵۲ء میں حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب نور اللہ مرقدہ کے مشورے سے، ٹپرانہ(جو شاملی اور جھنجھانہ کے درمیان کرنال روڈ پر ایک مسلم اکثریتی گاؤں ہے) تشریف لائے، اور پورے انہماک کے ساتھ مسلسل چودہ سال یہاں کی بڑی مسجد میں، امامت کے ساتھ، قرآن کریم کی تعلیم وتدریس ، وعظ وخطابت اور تفسیر قرآن میں مشغول رہے۔
اس کے بعد ۱۹۶۷ء میں مہتمم کی حیثیت سے جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت میں(جو اس وقت مکتب کی شکل میں تھا) تشریف لائے، وہاں آپ نے قرآن کریم اور دینیات کی تعلیم کے ساتھ فارسی وعربی کی تعلیم شروع فرمائی، یہاں فارسی عربی اول ودوم کی تقریبا تمام کتابوں کے ساتھ، کنز الدقائق اور جلالین شریف جیسی اہم کتابیں آپ کے زیر درس رہیں۔
تلامذہ:
آپ سے پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے، جن میں مولانا محمد ساجد صاحب استاذ حدیث وتفسیر مظاہر علوم سہارن پور، مولانا محمد یعقوب صاحب استاذ تفسیر مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد، مولانا شبیر احمد صاحب استاذ ادب عربی مفتاح العلوم جلال آباد، مولانا محمد عاقل صاحب شیخ الحدیث جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت، مولانا محمد ہارون صاحب مہتمم مدرسہ سبیل الرشاد سنولی ضلع پانی پت ہریانہ، مولانا محمد شمشیر صاحب گڑھی دولت، مولانا محمد زبیر صاحب گڑھی دولت، مولانا محمد زاہد صاحب مرحوم سابق مہتمم مدرسہ گل زار حسینیہ تیترواڑہ، مفتی رفیق احمد استاذ حدیث مدرسہ مسیح العلوم بنگلور(کرناٹک)اور مولانا محمد ارشد صاحب استاذ حدیث جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
بیعت وخلافت:
علوم اسلامیہ کی تحصیل کے ساتھ، ظاہر وباطن کی اصلاح نہایت ضروری چیز ہے، قرآنی ہدایات اور اسلامی تعلیمات پر کما حقہ عمل، عموماً اسی وقت ہوتا ہے جب کہ کسی صاحب نسبت شیخ کامل کے دست حق پرست پر بیعت کرکے اپنے ظاہر وباطن کی اصلاح کرائی جائے۔ آپ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے تھے، اس لیے علوم ظاہری کی تحصیل کے دوران ہی آپ نے اس طرف توجہ فرمائی، اور حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی قدس سرہ سے اصلاحی تعلق قائم کرکے، حضرت کی رہ نمائی میں راہِ سلوک طے کرنے میں مشغول ہوگئے؛ لیکن ابھی سلوک وطریقت کی تکمیل نہ کرسکے تھے1377ھ میں حضرت مدنی سفر آخرت پر روانہ ہوگئے، حضرت مدنی کے وصال کے بعد آپ نے حضرت کے جانشین فدائے ملت امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنی نور اللہ مرقدہ سے رجوع کیا، باضابطہ بیعت ہوئے، اور بہت تیزی کے ساتھ منازلِ سلوک طے کرتے ہوئے، جلدی ہی حضرت فدائے ملت کی طرف سے خلعتِ خلافت سے نوازے گئے۔ حضرت فدائے ملت کے علاوہ آپ کے استاذ محترم حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب کاندھلوی کی طرف سے بھی آپ کو اجازت وخلافت حاصل تھی۔
جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت میں آمد:
جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت مورخہ ۱۴؍ ذی الحجہ ۱۳۸۲ھ، مطابق مئی۱۹۶۲ء میں قائم ہوچکا تھا۔ مدرسہ کے ابتدائی دور میں حضرت مولانا ظہور احمد صاحب عماد پوری استاذ مظاہر علوم وقف سہارن پور اور حضرت مولانا حکیم عبد اللہ مغیثی صدر آل انڈیا ملی کونسل وغیرہ متعدد اہل علم مدرسہ کے انتظام وانصرام کے لیے تشریف لائے؛ مگر مدرسے کی تعمیر و ترقی کے لیے ازل ہی سے آپ کا انتخاب ہوچکا تھا، چناں چہ مدرسہ کے سرپرست حضرت مولانا زاہد حسن صاحب ابراہیمی خلیفہ حضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحب رائپوری قدس سرہ کے مشورہ سے1967ء میں مقامی لوگوں کا ایک وفد ٹپرانہ پہنچا، اور بحیثیت مہتمم وذمہ دار آپ کو گڑھی دولت لاکر مدرسہ آپ کے سپرد کردیا۔ بس پھر کیا تھا، آپ نے رات دیکھی نہ دن، سردی دیکھی نہ گرمی، بیماری کو خاطر میں لائے نہ ضعف و نقاہت اورپیرانہ سالی کی پرواہ کی، شبانہ روز مدرسہ کی ترقی کی فکر میں لگ گئے، ابتدائی دور میں مدرسہ کے لیے مالیات کی فراہمی کی خاطر ایک عرصہ تک کبھی پیدل اور کبھی سائیکل سے علاقہ بھر میں گھومے، اپنی تمام تر محنتوں اور مجاہدوں کامرکز مدرسہ کو بنالیا، اور مسلسل ۴۷ سال تک ایک مخلص، مدبر معاملہ فہم، مزاج شناس کامیاب مہتمم ومنتظم کی حیثیت سے مدرسہ کی خدمت انجام دیتے رہے۔
حضرت کے سوز دروں، شب وروز کی انتھک محنت، اورمسلسل جد وجہد کی برکت سے مدرسہ تعلیمی، تحویلی اور تعمیری ہر اعتبارسے اب ایک بڑے جامعہ کی شکل اختیار کر چکا ہے، اور اپنے اصول وضوابط میں دیگر مدارس سے ممتاز ہونے کے ساتھ، اس وقت ہندوستان کے اہم اور بڑے مدارس میں شمار ہوتا ہے، اور نہایت حسن وخوبی کے ساتھ دینی تعلیم وتربیت کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ حضرت کے انتظام سنبھالنے کے بعد سے آج تک جامعہ ہذا نے جو علمی، دینی، فکری، اصلاحی اور تربیتی خدمات انجام دی ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
جامعہ ہذا میں حفظ وناظرہ قرآن پاک، تجوید وقراء ت، ہندی، انگلش، کمپیوٹر اور فارسی کے علاوہ، عربی اول سے دورۂ حدیث شریف تک نہایت ٹھوس اور معیاری تعلیم کا نظم ہے۔ دورۂ حدیث شریف شوال ۱۴۳۱ھ میں شروع کیا گیا تھا، جو بحمد اللہ پوری کامیابی کے ساتھ علوم حدیث کی نشر و اشاعت کا ذریعہ بنا ہو ا ہے۔
اصلاح وتربیت:
آپ نے جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت میں لوگوں کی اصلاح وتربیت کے لیے ایک خانقاہ قائم کی، جس میں ہزاروں گم گشتہ راہ لوگوں نے آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوکر راہ پائی، اور سلوک وطریقت کی منازل طے کی۔ بیعت اور اصلاحی تعلق کا پورا فائدہ اُسی وقت ہوتا ہے جب کہ مرید کا اپنے شیخ سے رابطہ اور قوی تعلق ہو، اسی مقصد سے حضرت نے اپنے منتسبین ومریدین کی دینی رہ نمائی اور رابطے کے استحکام کے لیے ماہانہ ’’ذکر کی مجلس‘‘ کا اہتمام فر مایا، جو کئی سالوں سے ہر قمری ماہ کی آخری جمعرات کو منعقد کی جاتی رہی، قرب وجور اور دور دراز سے حضرت کے متوسلین اس میں شرکت کرکے اپنی روحانی واصلاحی قوت کو پروان چڑھا تے تھے، ان مجالس سے علاقہ میں بڑا فائدہ ہوا۔ اس کے علاوہ ہر سال ماہ رمضان کے آخری عشرہ کے اجتماعی اعتکاف کا بھی حضرت اہتمام فرماتے رہے، اس میں بھی آپ کے محبین ومتوسلین کافی بڑی تعداد میں شریک ہوکر، حضرت کے فیوض وبرکات اور ارشادات وہدایات سے اپنا دامن بھرتے تھے۔
اصلاح و تربیت کے حوالے سے آپ بڑے حساس واقع ہوئے تھے، طلبہ، ملازمین، اساتذہ، ملاقات کے لیے آنے والے حضرات کے لباس، وضع قطع اور اعمال و اخلاق پر گہری نظر رکھتے، جب کبھی کسی میں کوئی اخلاقی بے راہ روی، یا لباس اور وضع قطع میں بے اعتدالی دیکھتے، فوراً بڑی حکمت، مصلحت، شفقت اور محبت کے ساتھ اس پر تنبیہ فرماتے ۔
حضرت کا اندازِ اصلاح بڑا عجیب اور حکیمانہ تھا، کسی کو کوئی خلافِ شرع کام کرتے ہوئے دیکھتے، تو اُسے ڈانٹنے کے بجائے، بڑی حکمت کے ساتھ اس انداز سے اُس پر نکیر فرماتے کہ مخاطب بالکل برا نہیں مانتا تھا، اور فوراً اُس عمل سے توبہ کرلیا کرتا تھا، آپ کی نظر کسی کی کٹی ہوئی ڈاڑھی پرپڑجاتی، تو فرماتے :’’بھائی دیکھو! کہیں میری ڈاڑھی تو کٹی ہوئی نہیں‘‘، کسی کوپائجامہ یا لنگی ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے دیکھتے، تو فرماتے ’’دیکھو بھائی شاید میرا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہوا ہے‘‘۔ اللہ اکبر کیا عجیب اور حکیمانہ انداز تھا منکر پر نکیر کا۔ اللہ تعالی ہمیں بھی حضرت کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق فرمائے۔
حضرت کے خلفاء:
جن توفیق یافتہ حضرات نے حضرت کی خانقاہ سے وابستہ ہوکر حضرت سے اکتسابِ فیض کیا، اُن میں سے بعض حضرات وہ بھی ہیں جو حضرت کی نگرانی میں محنت ومجاہدے کے ساتھ راہ سلوک کی تکمیل کرنے کے بعد اجازت وخلافت کے مستحق قرار پائے، اُن میں حضرت کے بڑے صاحبزادے وجانشین حضرت مولانا محمد عاقل صاحب مہتمم جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت، مولانا محمد ارشد صاحب جوگی پورہ صدر المدرسین جامعہ بدر العلوم گڑھی دولتــ، حاجی شاہ نظر صاحب مرحوم (چرھو ضلع سہارنپور)، استاذ محترم حضرت مولانا عبد الحق صاحب قاسمی( لوئی ) اور میرے رفیق درس مولانا محمد شرافت صاحب قاسمی خواج پوری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مفتی محمد عباس صاحب بجرولوی اورقاری محمد عرفان صاحب کیرانوی نے بھی آپ ہی سے بیعت ہوکر راہ سلوک کی تکمیل کی؛ لیکن آپ نے غایت تواضع کی وجہ سے اُن کو خود اجازت دینے کے بجائے، اپنے شیخ فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنی رحمہ اللہ سے اجازت دلوائی۔
جمعیۃ علمائے ہند سے وابستگی:
دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی خدمت میں رہنے کی وجہ سے، آپ کو ’’جمعیۃ علمائے ہند‘‘ اور اُس کے مقاصد سے ایک قلبی تعلق پیدا ہوگیا تھا، چناں چہ یہی وجہ تھی کہ آپ ’’جمعیۃ علمائے ہند‘‘ کی تمام تحریکات، خواہ وہ ملک وملت بچاؤ تحریک ہو یا ریزر ویشن کے حق میں دستخطی مہم، مدارس اسلامیہ پر دہشت گردی کے الزام کی تردید کا مسئلہ ہو یا فساد زدگان کی امداد و نصرت کا معاملہ، ہر تحریک میں ہمیشہ پیش پیش رہے، جمعیۃ علماء ضلع مظفرنگر کے دو ٹرم تک صدر رہنے کے ساتھ، شاملی کے ضلع بن جانے کے بعد، جمعیۃ علماء ضلع شاملی کی صدارت بھی آپ ہی کے حصہ میں آئی۔
اصلاح معاشرہ کی تحریک:
حضرت کو معاشرہ کی اصلاح ودرستگی اور تعلیمی بیداری کا بڑا فکر تھا، علاقہ میں جہالت عام تھی، نشہ کا مرض پھیلتا جا رہا تھا، اورشادی بیاہ کی تقریبات میں بردرانِ وطن کی دیکھا دیکھی بہت سی غلط اور خلافِ شرع رسومات داخل ہوگئی تھیں، مثلاً لمبی لمبی بارات لے جانا، نکاح سے ایک دن پہلے عام دعوت جسے لوگ اپنی زبان میں منڈھا کہتے ہیں، سلامی، دان، بھات، لڑکیوں کی شادی میں عمومی دعوت کا اہتمام، غیر محرم مرد وعورتوں کا اجتماع وغیرہ، حضرت نے ان رسومات کو ختم کرکے خالص اسلامی طریقے پر شادی بیاہ کرنے، نشہ جیسی مہلک بیماری کے خاتمہ اور تعلیمی بیداری کے سلسلے میں ایک منظم تحریک چلائی، مختلف مقامات میں پروگرام اور جلسے کئے، ہر گاؤں میں اس کے لیے کمیٹیاں بنائیں، چھوٹے چھوٹے پمفلٹ چھپواکر تقسیم کرائے، اور خود فرداً فرداً جاکر لوگوں کو سمجھایا، جس کا اثر یہ ہوا کہ علاقہ سے کافی حد تک یہ رسومات ختم ہوگئیں اور اسلامی طریقے پر شادی کا رجحان عام ہوگیا، نشہ کافی حد تک کم ہوگیا اور نونہالانِ امت کی اسلامی تعلیم ودینی تربیت کے لیے علاقہ میں مدارس ومکاتب کا ایک وسیع جال پھیل گیا۔
حضرت کا خاص وصف:
یوں تو حضرت کو اللہ تعالی نے ہرطرح کے ظاہری وباطنی کمالات سے نوازا تھا؛ لیکن آپ کا خاص وصف تواضع اور خوش اخلاق تھی، بڑے سے بڑا کام کرتے؛ لیکن اُس کی نسبت اپنی طرف نہ کرتے؛ بلکہ دوسروں کی طرف کرکے یہ فرماتے: ’’بھائی میں تو کچھ بھی نہیں ہوں‘‘۔ حد یہ ہے کہ اپنے چھوٹوں کو بھی اپنے سے بڑا سمجھتے اور اونچے کلمات سے پکار تے تھے، ایک موقع پر فرمایا : ’’میرے مدرسے میں جتنے بھی لوگ ہیں سب بڑے ہیں‘‘۔
جو بھی آپ سے ملنے جاتا، خواہ شناسا ہوتا یا اجنبی، مسلمان ہوتا یا کافر، اُس سے ایسی خوش اخلاقی اور نرمی سے ملتے کہ وہ سمجھتا کہ حضرت کو سب سے زیادہ تعلق اورمحبت مجھ ہی سے ہے، جو ایک مرتبہ آپ سے مل لیتا وہ ہمیشہ کے لیے آپ ہی کا ہوکر رہ جاتا، حسب موقع بلحاظ فرقِ مراتب ہر وارد و صادر کی ضیافت فرماتے۔ گرمی کی دوپہر میں پورا مدرسہ سوتا رھتا؛ مگر حضرت آنے والے لوگوں سے ملاقات کرنے کے لیے بیٹھے رہتے،کوئی دعا کی درخواست کرتا اُس کے لیے دعا فرماتے، کسی کو تعویذ کی ضرورت ہوتی اُسے تعویذ دیتے، کوئی مسئلہ پوچھتا، اگر ذہن میں ہوتا بتادیتے، ورنہ مدرسے کے کسی مفتی صاحب کے پاس بھیج دیتے، اور فرماتے کہ ’’بھائی! میں مسائل نہیں جانتا؛ مفتیان کرام مسائل جانتے ہیں، اُن سے مسائل دریافت کرو‘‘۔
وفات:
اس طرح راہِ ہدایت کا یہ آفتاب تقریباً ۸۲ سال ضیاء پاشی کرتا ہوا، ۱۵؍ ربیع الاول 1436ھ مطابق ۷؍ جنوری 2015ء بروز بدھ، صبح سوا چھ بجے، طویل علالت کے بعد،’’میرٹھ کڈنی ہوسپٹل‘‘ میں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ رجعون ۔ جنازہ میرٹھ سے کاندھلہ لایا گیا، اور اُسی دن ظہر کی نماز کے بعد تقریباً ڈھائی بجے، عیدگاہ کاندھلہ کے وسیع وعریض میدان میں، حضرت کے استاذ حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب کاندھلوی نے ہزاروں کے مجمع میں آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی، اور کاندھلہ بائی پاس روڈ سے تھوڑے فاصلہ پر’’چار کھمبوں‘‘ کے سامنے خاندانی مقبرہ میں، آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
تواضع وانابت کا سرمایہ دار تھا ، نہ رہا
وہ ایک زاہد شب زندہ دار تھا، نہ رہا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں