حضرت مولانا رياست علی صاحب بجنوری رحمہ اللہ

جس سے ملتی تھی ہدایت، آہ رخصت ہوگیا
از :  مفتی محمد جاوید قاسمی 
استاذ حدیث جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت

    دنیا میں جو بھی آتا ہے، جانے ہی کے لیے آتا ہے، باقی رہنے والی ذات صرف اللہ عز وجل کی ہے، کچھ جانے والے تو وہ ہوتے ہیں جن کے آنے کا کسی کو پتہ چلتا ہے اور نہ جانے کا؛ لیکن اللہ کے کچھ مخصوص بندے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اُن کے دنیا میں آنے کا تو زیادہ لوگوں کو علم نہیں ہوتا؛ مگر اُن کے اِس بے ثبات و فانی دنیا سے جانے پراپنے بھی رنج و غم کے آنسو بہاتے ہیں اور پرائے بھی، چھوٹے بھی روتے ہیں اور بڑے بھی، قریب والے بھی گریہ کناں ہوتے ہیں اور دور والے بھی، انسان بھی غم زدہ ہوتے ہیں اور شجر و حجر بھی،اُن کے جدا ہونے پر سب اپنے آپ کو یتیم و بے سہارا محسوس کرتے ہیں ۔
متانت و ظرافت کے جامع، قادر الکلام شاعر، صاحب طرز ادیب، بلند پایہ محدث، حسنِ اخلاق، مہمان نوازی، سیر چشمی، عالی ظرفی، بلند حوصلگی، سلیقہ شعاری، تقوی و طہارت کے پیکر جمیل، استاذ محترم حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری نور اللہ مرقدہ انہی پاکیزہ نفوس میں سے تھے، جن کی وفات کا حادثہ کسی بستی، شہر، ملک، یاکسی فرد، یا مخصوص جماعت کا نہیں؛ بلک ساری دنیا اور پوری قوم و ملت کا اندوہ ناک سانحہ ہے۔ آپ کی وفات سے ملت اسلامیہ کے علمی، عملی و ادبی حلقوں میں جو خلا پیدا ہوا ہے اُس کی بھرپائی مشکل ہی سے ہوسکے گی۔
ولادت:
    ۹؍ مارچ 1940ء کو علی گڑھ کے محلہ ’’حکیم سرائے‘‘ میں پیدا ہوئے، جہاں آپ کے والد بزرگوار جناب منشی فراست علی صاحب مرحوم بسلسلۂ تدریس مقیم تھے، آپ کا آبائی وطن موضع ’’حبیب والا‘‘ ضلع بجنور ہے، جہاں عہدِ اکبری سے انصاری شیوخ آباد ہیں، آپ کا نسبی تعلق بھی انصاری شیوخ ہی سے ہے، ابھی چار سال کی عمر تھی کہ والد صاحب کا سایۂ عاطفت سر سے اٹھ گیا ، اورسنتِ یتیمی آپ کے حصہ میں آگئی۔ آپ اس زمانہ کا اپنا یہ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ جب والد صاحب کا انتقال ہوگیا، تو ایک روز میں نے اپنی والدہ سے کہا :  ’’امی ! اب ہم کھانا کہاں سے کھائیں گے؟‘‘، چار سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے، اس عمر میں آپ کا والدہ سے یہ معصومانہ فکر انگیز سوال آپ کی غیر معمولی فطری ذہانت وذکاوت کا پتہ دیتا ہے۔
تعلیم:
    تعلیم کا آغاز آپ نے اپنے وطن موضع حبیب والا ہی سے کیا، 1951ء میں جب کہ آپ کی عمر گیارہ سال تھی، ابتدائی تعلیم کی تکمیل اور پرائمری درجہ چہارم کا امتحان پاس کرکے، اپنے پھوپھا مولانا سلطان الحق بجنوری ؒ (جوتقریباً پچاس سال دار العلوم دیوبند کے ناظمِ کتب خانہ رہے) کے ساتھ آکر دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا، مولانا سلطان الحق صاحب کو اللہ تعالی نے یتیموں کی کفالت و تربیت کے خاص جذبہ و ذوق سے نوازا تھا، جن یتیموں کی انہوں نے جزوی کفالت کی ان کی تعداد ہزارسے متجاوز ہے اور جن کی انہوں نے کلی کفالت کی ان کی تعداد بھی سینکڑوں سے کم نہیں ہوگی، اسی مبارک اور قابل تقلید جذبہ کے تحت مولانا سلطان الحق صاحب آپ کو اپنے ہم راہ دیوبند لے آئے ، اور آپ کی مکمل کفالت و تربیت فرمائی۔ 1958ء میں آپ نے دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی، دار العلوم کی تاریخ میں آپ کا یہ سنہرا ریکارڈ درج ہے کہ دورۂ حدیث کے سالانہ امتحان میں آپ نے جو امتیازی نمبرات حاصل کیے ہیں دار العلوم دیوبند میں آپ کے بعد آج تک کوئی دورہ کا طالب علم اُن سے زیادہ نمبرات حاصل نہیں کرسکا۔ فراغت کے بعد بھی اپنے خاص استاذ حضرت مولانا فخر الدین احمد مراد آبادی صدر المدرسین وشیخ الحدیث دار العلوم دیوبند کے دامنِ علم سے وابستہ رہ کر برسوں استفادہ کرتے رہے اور اپنے استاذ محترم کے درسِ بخاری کی تقریروں کو (جنہیں آپ نے دورۂ حدیث کے سال ضبط کیا تھا) مرتب کرکے ’’ایضاح البخاری‘‘ کے نام سے شائع کرنا شروع کیا جس کی اب تک دس ضخیم جلدیں شائع ہوچکی ہیں اور مزید ترتیب کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ اسی دوران آپ نے علی گڑھ سے ’’ادیب کامل‘‘ کے امتحان میں اول پوزیشن سے کامیابی حاصل کی اور ’’سر سید میڈل‘‘ سے سرفراز ہوئے۔
علمی خدمات:
    فراغت کے بعد کچھ عرصہ جمعیۃ علماء ہند کے دفتر میں رہے، اور دیوبند میں رہ کر کسبِ معاش کے لیے کتابت و خوش خطی سیکھ کر اسے بھی کچھ عرصہ تک ذریعۂ معاش کے طور پر اپنایا؛ لیکن آپ کی اعلی درجہ کی علمی صلاحیت و قابلیت اس بات کی متقاضی تھی کہ آپ کسی بڑے ادراہ میں رہ کر تدریسِ علوم و فنون کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں اور طالبانِ علوم نبوت کو نفع پہنچائیں، چناں چہ اللہ تعالی کی طرف سے اس کا یہ غیبی انتظام ہوا کہ فراغت کے ۱۴؍ سال بعد ۱۳۹۱ھ مطابق 1972ء میں دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس آپ کا تقرر ہوگیا اور تا دمِ آخر تقریباً چوالیس سال کے طویل عرصہ تک آپ دار العلوم میں نہایت کامیابی کے ساتھ درس دیتے رہے، آپ کا درس نہایت مقبول، مربوط، عام فہم اور سبک رفتار ہوتا تھا، ’’سنن ابن ماجہ‘‘ اور ’’جامع ترمذی‘‘ وغیرہ اہم کتابیں آپ کے زیر درس رہیں۔ بندہ عاجز نے بھی ۲۰۰۳ء میں آپ سے ’’سنن ابن ماجہ‘‘ پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔
    آپ کو اللہ تعالی نے علمی و تدریسی صلاحیت کے ساتھ ، انشاء و مضمون نگاری کی بھی اعلی قابلیت سے نوازا تھا، اسی لیے اربابِ انتظام کی طرف سے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ ماہ نامہ ’’دار العلوم‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد کی گئی جس کو آپ نے برسوں بحسن وخوبی انجام دیا۔
     1405ھ مطابق 1985ء میں مجلس شوری نے آپ کو مزید ترقیات سے نوازتے ہوئے ’’مجلس تعلیمی‘‘ کا ناظم مقرر کیا، شعبۂ تعلیمات سے منسلک ہوکرآپ نے اس میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنے کے ساتھ ، متعدد ایسی قابل قدر اصلاحات کیں جن سے شعبۂ تعلیمات کو سدھار، انفرادیت اور استحکام نصیب ہوا، آپ کا دورِ نظامت مثالی تھا، نازک حالات میں دار العلوم کے تعلیمی نظام کو سنبھالا دینا اور اسے ترقی کی بلندیوں پر پہنچانا آپ کا تاریخی کارنامہ ہے۔ 
1408ھ مطابق 1988ء میں آپ کو ’’شیخ الہند اکیڈمی‘‘ کا نگراں مقرر کیا گیا، آپ کی فعال قیادت نے وہاں بھی اپنا رنگ دکھایا اور چند ہی سال میں ’’شیخ الہند اکیڈمی‘‘ سے آپ کی زیر نگرانی متعدد معیاری کتابوں نے زیور طبع سے آراستہ ہوکر دادِ تحسین حاصل کی۔ آپ بارہا عارضی طور پر نیابتِ اہتمام کی اہم ذمہ داری بھی انجام دیتے رہے، 1412ھ میں ’’مجلس شوری‘‘ نے باقاعدہ آپ کو نائب مہتمم مقرر کرنے کی تجویز بھی پاس کی؛ مگر آپ نے اسے قبول کرنے سے معذرت کردی۔
تصانیف:
    اللہ تعالی نے آپ کو تصنیف و تالیف کا بھی عمدہ ذوق عطا فرمایا تھا، آپ کی تصانیف میں’’ایضاح البخاری ‘‘ آپ کے علمی و ادبی ذوق کا شاہ کار اور بخاری کی اردو شروح میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے، ’’شوری کی شرعی حیثیت ‘‘ اور ’’مقدمۂ تفہیم القرآن کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘ بھی آپ کی اہم تصانیف میں شمار ہوتی ہیں، نیز اصول فقہ میں بحر العلوم حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی دامت برکاتہم کے ساتھ مشترکہ طور پر ’’تسہیل الاصول‘‘ لکھی جو دار العلوم دیوبند اور اس کے نہج پر چلنے والے مدارس اسلامیہ میں سال چہارم میں داخلِ درس ہے۔ اخیر زمانے میں علامہ قاضی محمد بن علی تھانوی (متوفی ۱۱۹۱ھ) کی مشہور کتاب: ’’کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم‘‘پر تحقیقی کام بھی کیا جو پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا ہے اور عنقریب شائع ہونے والا ہے۔ 
    علم وعمل میں بلند مقام پر فائز ہونے کے ساتھ آپ شعرو ادب میں بھی اعلیٰ ذوق کے حامل تھے، جس کا زندہ ثبوت آپ کا تخلیق کردہ دار العلوم دیوبند کا شہرہ آفاق ’’ترانہ‘‘ ہے جو ایک لا زوال ادبی شہ پارہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کا مجموعۂ کلام ’’نغمۂ سحر‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔
اوصاف و کمالات:
     اتباعِ سنت و شریعت، تو اضع و فروتنی اور عجز و انکساری آپ کی ذاتِ عالی میں کچھ اس طرح رچی بسی ہوئی تھی جیسے آپ کا خمیر ہی تواضع و اتباع سنت سے اٹھا ہو، ایک ایک چیز میں سنتِ نبوی کی تلاش و جستجو، اس کی کامل پیروی، اپنے اور پرائے کا فرق کیے بغیر ہر ملنے والے کے ساتھ حسنِ اخلاق، رأفت و رحمت اور نرمی کا برتاؤ، انتہائی درجہ کی تواضع، عاجزی و انکساری آپ کا خاص وصف تھا؛ تقوی و پرہیزگاری، صدق و دیانت ، اخلاص و للہیت اور علم و عمل میں اسلاف کا نمونہ تھے، تکبر، بڑائی، امتیاز اور خود پسندی سے آپ کو اللہ واسطے کا بیر تھا، کبھی کسی مجلس، جلسہ اور پروگرام کی صدارت قبول فرماتے اورنہ امتیازی جگہ بیٹھتے؛ بلکہ کسی بھی پروگرم میں شرکت کے لیے آپ کی بنیادی اور اولین شرط یہی ہوتی تھی کہ صدارت کی ذمہ داری سے آ پ کو بری رکھا جائے گا۔
     آپ اس کو بھی پسند نہیں فرماتے تھے کہ ترجمان یا کوئی طالب علم آپ کو سبق کے لیے درس گاہ میں لے جانے کے لیے آئے، ترجمان سے شروع ہی میں کہہ دیا کرتے تھے کہ مجھے لینے کے لیے آنے کی ضروت نہیں، وقت ہونے پرمیں خود ہی آجا یا کروں گا، ہاں! فون کرکے معلوم کرسکتے ہو کہ سبق ہوگا یا نہیں؟ اپنا کام ہمیشہ خود کرنے کی عادت تھی، کسی سے خدمت لینا پسند نہ فرماتے، جسمانی خدمت سے تو آپ کو گویا نفرت تھی۔
    آپ کی ذہانت و فطانت ضرب المثل تھی، اصابتِ رائے، دور اندیشی، معاملہ سنجی اور نتیجہ خیزی میں دور دور تک آپ کی نظیر نہیں تھی؛ یہی وجہ تھی کہ دار العلوم دیوبند، جمعیۃ علماء ہند یا دیگر اداروں اور تنظمیوں کے اربابِ انتظام وذمہ داران اگر کسی معاملہ میں الجھن اور تردد کا شکار ہوتے اور اس کا کوئی حل نکلتا ہوا نہ نظر آتا، تو آپ ہی کی طرف رجوع کرتے تھے، اور آپ منٹوں میں اس کا ایسا حل نکال دیا کرتے تھے کہ جس سے ساری الجھن ختم ہوجاتی اور سکون و اطمینان حاصل ہوجاتا۔
فکر وعمل کی ہمہ گیری اور کتب بینی و مطالعہ کی گہرائی و گیرائی کا یہ عالم تھا کہ مادر علمی کے بڑے بڑے اساتذہ، وقت کے محدثین و فقہاء دقیق اور پیچیدہ مسائل میں آپ سے مشورہ کیاکرتے تھے۔
    احساسِ ذمہ داری، درس کی بے مثال پابندی اور مفوضہ کام کی اس کے وقت پر انجام دہی آپ کی طبیعت ثانیہ بن گئی تھی، دار العلوم کی انتظامیہ کی طرف سے جو بھی کام آپ کو دیا جاتا، اس کی طرف نظر کیے بغیر کہ کام چھوٹا ہے یا بڑا، معمولی ہے یا غیر معمولی، اس کو انجام دینا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے، آپ کے اسی وصف ِ احساس ذمہ داری اور آپ کی ہمہ گیر صلاحیت کو سراہتے ہوئے نواسۂ شیخ الہند حضرت مولانا محمد عثمان صاحب رحمہ اللہ نائب مہتمم دار العلوم دیوبند فرمایا کرتے تھے کہ : ’’ ریاست ایسا پرزہ ہے کہ اسے جہاں چاہو فٹ کردو وہیں کام کرنے لگتا ہے۔‘‘ 
    انتہائی ضعف اور علالت کے باوجود آخر تک پابندی سے سبق پڑھاتے رہے؛ بلکہ وفات سے دو روز پہلے تک امتحان گاہ میں بھی نگرانی کے لیے التزام کے ساتھ تشریف لاتے رہے، جب حضرت مہتمم صاحب اور حضرت الاستاذ مولانا عبد اللہ صاحب معروفی ناظم امتحان نے آپ کی غیر معمولی کمزوری اور پیرانہ سالی کو دیکھتے ہوئے یہ عرض کیا کہ : حضرت! آپ کو تکلیف ہوتی ہے، آپ اس کمزوری میں امتحان گاہ میں نہ آیا کریں، گھر رہ کردعا فرماتے رہیں‘‘ تو آپ نے یہ مشورہ قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمادیا کہ : ’’شرعاً اس کی گنجائش نہیں ہے ۔‘‘
سفرِ آخرت:
 ۲۳؍ شعبان 1438ھ مطابق ۲۰؍ مئی 2017ء سنیچر کی شب میں تہجد کے لیے اٹھے، تہجد پڑھ کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ طبیعت بگڑگئی، اور حرکتِ قلب بند ہوجانے کے سبب،76؍ سال دو ماہ گیارہ دن اپنی مقررہ عمرِ طبعی پوری کرکے کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے ہمیشہ کے لیے وہاں چلے گئے جہاں جاکر کبھی کوئی واپس نہیں آتا۔ ( انا للہ و انا لیہ رجعون) اسی دن ظہر کی نماز کے بعد ’’احاطہ مولسری‘‘ میں حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری استاذ حدیث دار العلوم دیوبند نے ہزاروں علماء، صلحاء، مشائخ اور طلبہ کے مجمع میں نمازِ جنازہ پڑھائی، اور دیوبند کے مشہور قبرستان ’’مزار قاسمی‘‘ میں تدفین عمل میں آئی ۔ اللہ تعالی حضرت استاذ محترم کی مغفرتِ اولیٰ بلا حساب فرمائے، درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے۔ (آمین)
حالِ دل کس کو سنائیں کون دے گا مشورہ
جس سے ملتی تھی ہدایت، آہ رخصت ہوگیا

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حزب البحر مع طريق زکوۃ

زندہ مرغی تول کر بيچنے کا حکم

مفتی قاسم جلال آبادی